عقیل یوسفزئی
مشرقی اور پاکستانی معاشروں خصوصاً پشتون معاشرے کو صدیوں اور دھائیوں سے مختلف متضاد اور متصادم رویوں نے جکڑ کر رکھا ہوا ہے ۔ یہاں ماضی پرستی اور جدیدیت کی ٹکراؤ نے انسانی رویوں پر نہ صرف منفی اثرات مرتب کیے بلکہ یہاں کی سب سے بڑی ” مصیبتوں” میں شخصیت پرستی اور اندھی تقلید جیسے عوامل نے بھی بہت تباہ کن کردار ادا کیا ہے ۔ ستم کی بات یہ ہے آج کا پشتون معاشرہ بحیثیت مجموعی نرگسیت کا شکار ہونے کے علاوہ تنگ نظری یا تنقید برائے تنقید کے امراضِ لاعلاج میں بھی مبتلا ہے ۔ اپر سے ہم زندگی بیزارگی کی عادتوں سے بھی مجبور ہیں ۔ اسی تناظر میں بعض ماہرین کی رائے ہے کہ ہمیں سیاسیات اور تعلیمات کی بجائے ” اخلاقیات” کی ضرورت ہے ۔
پہلے ہی سے مختلف انواع کے امراض کے ہوتے ہوئے اس معاشرے کو ایک اور بڑے مگر پیچیدہ چیلنج سے اس وقت دوچار ہونا پڑا جب سوشل میڈیا کے غیر ضروری اور غیر ذمہ دارانہ استعمال کو ہم نے نتائج اور اثرات کا ادراک کیے بغیر اپنے اپر لازم قرار دیا اور غیر معلوماتی اور غیر ضروری مواد پر انحصار کرنے کی بنیاد رکھی ۔
دنیا میں انٹرنیٹ سے وابستہ تمام سہولیات معلومات کی حصول اور فراہمی کے لیے استعمال ہوتی آرہی ہیں مگر ہم میں سے شاید ہی 10 فی صد لوگ ان سہولیات کے مفید یا بامقصد استعمال پر توجہ دیتے ہو ۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران خیبرپختونخوا میں بہت کم تعداد میں ایسے لوگ متعارف ہوئے جنہوں نے انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا کے ذریعے خود کو منوایا ہو یا ان سہولیات کے بامقصد استعمال پر توجہ دی ہو ۔ سوشل میڈیا ایک مؤثر عوامی ” میڈم” ہے مگر ہم نے اس کو میدان جنگ میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور دوسروں کو نشانہ بنانے کے علاؤہ ہماری اکثریت خود کو بھی اذیت دینے کے مرض میں مبتلا ہوتی دکھائی دیتی ہے جس کے باعث ہم خودنمائی اور تنقید کی کیفیات سے بیک وقت دوچار ہوکر دوسروں کی تکلیف کا باعث بنتے آرہے ہیں ۔
اس منظر نامے میں نئی نسل کے جن اہم سوشل میڈیا ہینڈلرز اور ایکٹیویٹس نے پشتون معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کیا بلاشبہ نوجوان صحافی اور لکھاری آفسر الملک افغان ان میں سرفہرست ہیں جن کے فالورز کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے تاہم ” اذیت پسند” حلقوں اور عناصر نے آفسر افغان کو بھی نہیں بخشا اور وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی بہانے ان کی کردار کشی اور حوصلہ شکنی کی مہمات چلایی جاتی رہی ہیں ۔ متعدد دیگر باصلاحیت نوجوانوں کو بھی غیر ضروری تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جو کہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ ہم بلاشبہ اسے ” ٹیلنٹ کش” رویے کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔
بظاہر پسماندہ علاقے شانگلہ سے تعلق رکھنے والے آفسر افغان نے نہ یہ کہ جرنلزم میں ماسٹرز کیا ہے اور وہ مین سٹریم میڈیا کا فعال حصہ رہے ہیں بلکہ انہوں نے پشتون ادبیات میں بھی ماسٹر کی ڈگری لی ہوئی ہے ۔ وہ چونکہ سوشل میڈیا اور اگلے مرحلے میں ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت اور افادیت سے بخوبی واقف ہیں اس لیے انہوں نے ان پلیٹ فارمز پر توجہ مرکوز کرکے نہ صرف اس کے جدید اور بامقصد استعمال کو ممکن بنایا بلکہ اس تمام عمل کو مقصدیت کے علاؤہ روزگار کا ذریعہ بھی بنایا جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے ۔ ” بھیڑ بھاڑ اور چھیڑ چھاڑ ” کے اس گھٹن زدہ معاشرے میں انہوں نے جہاں اس خطے کو درپیش چیلنجز پر اپنے مخصوص عوامی انداز میں عام لوگوں کو شعور دینے کی کوشش کی بلکہ خیبرپختونخوا کے سافٹ امیج ، سیاحت ، ثقافت اور ادب کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ وہ مختلف نوعیت کے تجربات کے عادی نوجوان ہیں اور ان تجربات کے دوران فطری طور پر ان سے بعض غلطیوں کا ارتکاب بھی ہوگیا ہوگا تاہم وہ نہ صرف ردعمل کے طور پر ” اعتراف” کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات ناراضگی اور غصے کی بجائے اپنے دلایل سے اپنا موثر دفاع بھی کرتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بے رحمانہ رویوں ، تنقید اور کردار کشی کی بجائے ہم ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کریں ، سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کو ممکن بنائیں بلکہ خود احتسابی کی تھیوری کے مطابق اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ ہم ” خود ” اس جنگ زدہ اور تعفن زدہ معاشرے کی اصلاح کے لیے کیا کردار ادا کرتے آرہے ہیں ؟ تنقید کرنا دنیا کا آسان ترین کام ہے تاہم اس کام کو ایک اجتماعی رویے کے طور پر اپنانا نہ صرف خطرناک عمل ہے بلکہ ہم اس کی آڑ میں ” سماجی جرایم ” کا ارتکاب بھی کرتے ہیں ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ شخصیت پرستی اور نرگسیت کے ساتھ ساتھ غیر ضروری تنقید کے رویوں اور اثرات پر بھی گفتگو کرتے ہوئے توجہ دی جائے ۔
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ