اے وسیم خٹک
ہارس ٹریڈنگ سیاست میں ووٹوں کی خرید و فروخت اور عوامی مینڈیٹ کی سودے بازی کو ظاہر کرنے والی اصطلاح ہے۔ انگریزی میں Horse Trading گھوڑوں کی خریدو فروخت کے لیے استعمال ہوتا تھا جہاں قیمت، نسل اور سودے بازی اہم کردار ادا کرتی تھی۔ یہ لفظ جب سیاست میں آیا تو اس نے ووٹ، ضمیر اور وفاداری کے سودے کا مفہوم اختیار کر لیا۔
امریکہ میں انیسویں صدی میں یہ اصطلاح سب سے پہلے مقبول ہوئی برطانیہ اور یورپ میں بھی کبھی کبھار کمزور مخلوط حکومتیں بنانے کے لیے چھوٹی پارٹیوں یا آزاد امیدواروں کی بولی لگتی رہی لیکن سخت قوانین، میڈیا کی آزادی اور عوامی شعور نے اس کو کبھی نظام کا مستقل حصہ نہیں بننے دیا۔
پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کی باقاعدہ بنیاد 1980 کی دہائی میں پڑی جب جنرل ضیاء الحق کے دور کے بعد جماعتی سیاست بحال ہوئی۔ اس کے بعد مخلوط حکومتوں کا دور شروع ہوا جس میں آزاد امیدواروں اور چھوٹے گروپوں کی اہمیت بڑھی۔ 1988 کے بعد بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار میں حکومتیں بنانے اور گرانے کے کھیل میں ہارس ٹریڈنگ کو اوج ملا۔ ترقیاتی فنڈز، وزارتیں اور دیگر مراعات ارکان کی وفاداریاں بدلنے کا ذریعہ بنیں۔
1999 میں جنرل پرویز مشرف نے منتخب حکومت گرا کر جب سیاسی انجینئرنگ کی تو مسلم لیگ (ق) بنائی گئی۔ اس کے لیے مسلم لیگ (ن) کے ارکان کو توڑا گیا، لالچ دیے گئے اور اقتدار میں حصہ داری کی پیشکش ہوئی۔ اسی وجہ سے سیاسی لغت میں ’’لوٹا کلچر‘‘ کی اصطلاح عام ہوئی۔ اس دور میں بھی سینیٹ اور اسمبلیوں میں ہارس ٹریڈنگ پر پردہ ڈالنے کے لیے کوئی مؤثر قانون سازی نہ ہو سکی۔
دو ہزار چھ (2006) میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے چارٹر آف ڈیموکریسی میں عہد کیا کہ اس روایت کو ختم کریں گے، مگر عملاً ایسا نہ ہو سکا۔ تحریک انصاف جب 2011 کے بعد ایک بڑی سیاسی طاقت کے طور پر ابھری تو اس نے اپنے منشور میں ہارس ٹریڈنگ کے خلاف سخت موقف اپنایا۔ عمران خان نے ہر الیکشن سے پہلے دعویٰ کیا کہ وہ ’’ضمیر فروشوں‘‘ کا راستہ روکیں گے۔ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں بھی پی ٹی آئی نے اپنے ارکان کو ضمیر فروشی کے الزام میں پارٹی سے نکالا، جسے پارٹی کے اندر شفافیت کی علامت سمجھا گیا۔
تاہم 2021 کے سینیٹ انتخابات میں ویڈیوز منظر عام پر آئیں جن میں مبینہ طور پر ارکان کو پیسے لیتے دیکھا گیا۔ حکومت نے خفیہ ووٹنگ ختم کر کے اوپن بیلٹ لانے کی کوشش کی مگر عدالت نے کہا کہ خفیہ ووٹ آئین کا حصہ ہے، لہٰذا اس میں تبدیلی پارلیمان ہی کر سکتی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کی تحریک عدم اعتماد میں بھی ہارس ٹریڈنگ کا شور سب سے زیادہ سنائی دیا۔ عمران خان نے بار بار کہا کہ ان کے ارکان کو خریدا گیا، بیرونی سازش اور اندرونی ضمیر فروشی سے ان کی حکومت ختم کی گئی۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے اس الزام کو مسترد کیا اور کہا کہ ارکان نے اپنی مرضی سے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا۔ یوں ہارس ٹریڈنگ پاکستان میں آج بھی سب سے بڑا انتخابی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
سینیٹ میں یہ بدعنوانی سب سے زیادہ پنپتی ہے کیونکہ ووٹ خفیہ ہوتے ہیں۔ پارٹی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کس نے ووٹ بیچا۔ آرٹیکل 63-A موجود ہے لیکن ثبوت مشکل سے ملتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اوپن ووٹنگ، سخت ضابطے، جدید ٹیکنالوجی اور عوامی دباؤ سے اس بدنام روایت کا راستہ روکا جائے۔ اصل ذمہ داری عوام پر بھی ہے کہ وہ ایسے ’’ضمیر فروش‘‘ نمائندوں کو دوبارہ منتخب نہ کریں۔ جب تک ووٹ کی حرمت کا تحفظ نہیں ہو گا، جمہوریت بار بار نیلام ہوتی رہے گی۔