GHAG

سی ٹی ڈی رپورٹ اور درپیش چیلنجز

عقیل یوسفزئی

کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی ) نے خیبرپختونخوا میں رواں برس کے 8 مہینوں کے دوران صوبے میں سیکیورٹی صورتحال اور اقدامات کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگست 2025 تک کے عرصے میں خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے 605 واقعات یا حملے رپورٹ ہوئے جبکہ اس عرصے میں 351 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس عرصے میں مختلف دہشت گرد کارروائیوں کے دوران 138 عام شہری شہید اور جبکہ 300 سے زائد زخمی ہوئے ۔ مزید بتایا گیا ہے کہ رواں سال مختلف حملوں ، واقعات میں خیبرپختونخوا پولیس کے 79 اہلکار ، افسران شہید جبکہ 130 زخمی ہوئے ۔ رپورٹ کے مطابق اس سال سب سے زیادہ واقعات یا حملے بنوں میں ہوئے جن کی تعداد 42 رہی ۔ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے ۔

اس رپورٹ سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ خیبرپختونخوا کو فورسز کی مسلسل کارروائیوں کے باوجود بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے اور دہشت گرد کارروائیوں سے عام لوگ بھی محفوظ نہیں رہے ۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ رواں برس حملوں اور ہلاکتوں کی تعداد سی ٹی ڈی کی مذکورہ تفصیلات سے زائد ہے کیونکہ اس رپورٹ میں دیگر فورسز کے شہداء کی تعداد شامل نہیں ہے ۔

رواں برس اب سے زیادہ حملے پاک فوج اور ایف سی پر کیے گئے ہیں اور ان کے شہداء کی تعداد بھی زیادہ رہی ہے ۔

اس صورتحال پر اظہار تشویش کرتے ہوئے قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ صوبائی اور وفاقی دونوں حکومتوں کو خیبرپختونخوا کی بگڑی ہوئی سیکیورٹی صورتحال کا ادراک نہیں ہورہا ۔ ان کے بقول اس وقت صوبے کو بدامنی کی جس لہر کا سامنا ہے اس کی مثال ہمیں ماضی میں نہیں ملتی ۔ اس سے نمٹنے کے لیے لازمی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر آجائیں ، عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور افغان حکومت کے ساتھ روابط بڑھائے جائیں ۔

سینئر صحافی سجاد انور کے مطابق خیبر پختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال نے متعدد اہم سوالات کو جنم دیا ہے اور اس ضمن میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ سول حکومتوں کی دفاعی صلاحیت اور حکمت عملی کیا ہے ؟ ان کے مطابق لگ یہ رہا ہے کہ کراس بارڈر ٹیررازم کے خاتمے کے لیے چین کی کوششوں سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو سفارت کاری شروع ہوئی تھی وہ سودمند ثابت نہیں ہوئی ۔

دوسری جانب گزشتہ روز باجوڑ کے علاقے خار میں ایک کرکٹ اسٹیڈیم کے قریب ہونے والے بم دھماکہ سے فضل اللہ نامی جوان شہید ہوا جبکہ ایک بچہ زخمی ہوا ۔ اگلے روز باجوڑ میں ایک مقامی ایس ایچ او کے بیٹے کو شہید کیا گیا تو اسی دوران لکی مروت سے اغواء کئے گئے ایک پولیس اہلکار کو بھی شہید کیا گیا ۔ بنوں کے اکثر علاقوں میں کرفیو جیسی صورتحال رہی تو وزیرستان کے دو اضلاع میں بھی حالات کشیدہ رہے ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حملہ اور گروپ خیبرپختونخوا حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان موجود فاصلوں اور صوبائی حکومت کی پرو طالبان پالیسی سے فایدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ اس ضمن میں بیڈ گورننس کی ترجیحات کے فقدان کے باعث بھی بہت سے مسایل صوبے کو درپیش ہیں اس لیے حالات پر قابو پانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں ۔

(ستمبر 7، 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts