ایک لمبے مگر غیر ضروری پراسیس کے بعد بہت سے تلخیاں پیچھے چھوڑ کر خیبرپختونخوا سے 11 سینیٹرز کی نمائندگی کا عمل پورا ہوگیا ہے تاہم اس تمام کہانی کا افسوسناک باب یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی پورے ملک میں جگ ہنسائی ہوئی ہے اور یہ تاثر بہت عام ہوگیا ہے کہ خیبرپختونخوا ہی میں ہر الیکشن کے دوران خریدوفروخت کی ” منڈی ” کیوں لگتی ہے ؟ چند مخصوص خاندانوں اور دولت مندوں کو ٹکٹس دینے سے نہ صرف سیاسی پارٹیوں کی ساکھ متاثر ہوئی ہے بلکہ عام ورکرز میں بھی بہت بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور اس ضمن میں پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکن سرفہرست ہیں ۔ یہ کریڈٹ پی ٹی آئی کے مزاحمتی اُمیدواروں اور ان کے حامیوں کو دینا ہی چاہیے کہ انہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم پر باقاعدہ احتجاج کیا دوسری پارٹیوں کی جانب سے تو ایسا کوئی ردعمل بھی سامنے نہیں آیا ۔ حالانکہ اگر ایک طرف امیر مقام نے اپنے صاحب زادے کو سینیٹر بنایا تو دوسری طرف مولانا فضل الرحمان بھی ایک امیر بندے کو سینیٹر بنا گئے ۔ اسی پس منظر میں ” کریڈٹ کارڈ ” کی اصطلاح پھر سے عام ہوگئی ہے جو کہ اس جانب اشارہ ہے کہ سیاست اب مڈل کلاس کے بس کی بات نہیں رہی نا ہی اکثر سیاسی پارٹیوں میں نظریاتی کارکنوں یا قربانیوں کی کوئی اہمیت باقی رہی ہے ۔
سب سے بڑا دھچکا اس الیکشن میں پی ٹی آئی کو لگا ہے جس نے عجیب و غریب ڈیلنگ کرکے مختلف نوعیت کی قلابازیوں کا ریکارڈ توڑ دیا ۔ پارٹی کے اندرونی اختلافات نے خیبرپختونخوا میں اس حکمران پارٹی کی ساکھ اور طاقت کو مزید متاثر کردیا ہے اور مختلف لیڈرز ایک دوسرے پر کھلے عام الزامات لگانے میں مصروف ہیں ۔ اس صورتحال نے پارٹی کے بانی عمران خان کی جانب سے 5 اگست کی احتجاجی کال کی کامیابی کو بھی مشکوک بنادیا ہے کیونکہ پارٹی کی تمام احتجاجی تحریکوں کی بیس کیمپ خیبرپختونخوا ہی رہا ہے اور یہاں کی صوبائی حکومتوں نے بھی تینوں ادوار میں ان احتجاجوں میں پورا حصہ ڈالا ۔ اگر چہ اب بھی پارٹی کے اندر اس کے باوجود وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور بہت فعال اور مرکزی کردار ہیں کہ ان کے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں ہے اس حقیقت کو پھر بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ دوسرے قائدین اپنے بانی کی توقعات پر پورے نہیں اترے اور علی امین گنڈاپور کا ہولڈ اب بھی قائم ہے ۔
اس اہم مرحلے کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعلیٰ کو مزید سیاسی الجھنوں سے دور رکھ کر دوسرے قائدین لیڈنگ رول ادا کریں تاکہ وزیر اعلیٰ صوبے کے سیکیورٹی اور انتظامی معاملات پر توجہ مرکوز کریں کیونکہ عوام کے علاؤہ اب پی ٹی آئی کے کارکنان اور ووٹرز بھی صوبائی حکومت سے صوبے کے مسایل حل کرنے کا تقاضا کرنے لگے ہیں ۔ اس کے علاؤہ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ وزیر اعلیٰ اپنے اعلان کے مطابق صوبے کی سیکیورٹی صورتحال پر آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کو یقینی بنائیں اور ساتھ میں صوبائی اپیکس کمیٹی کا اجلاس بلانے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کریں تاکہ جاری بدامنی اور بے چینی کے خاتمے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی اختیار کی جائے ۔