GHAG

آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد

آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد

خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے اپنے اعلان کو عملی جامہ پہناتے ہوئے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو دعوت نامے جاری کردیے ہیں ۔ اے پی سی جمعرات کے روز پشاور میں طلب کی گئی ہے جبکہ اے این پی اور جماعت اسلامی نے بھی خیبرپختونخوا خصوصاً قبائلی علاقوں کی بگڑتی سیکیورٹی صورتحال پر جرگوں کے انعقاد کے اعلانات کیے ہیں ۔ جے یو آئی اسی مہینے پشاور میں ایک جرگے کا اہتمام کرچکی ہے تاہم صوبائی حکومت کی آل پارٹیز کانفرنس اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ صوبے کی سیکیورٹی صورتحال اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومت کے ڈومین یا ذمہ داریوں میں آتی ہے اور اے پی سی کے ذریعے حکومت کو دیگر پارٹیوں کا موقف سمجھنے میں مدد ملے گی۔

اپوزیشن خصوصاً قوم پرست جماعتوں کا موقف رہا ہے کہ پی ٹی آئی کالعدم ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کی درپردہ حامی رہی ہے اور صوبائی حکومت اسی تناظر میں پرو طالبان پالیسیوں پر عمل پیرا ہوکر رعایت برتی چلی آرہی ہے ۔ اس تاثر کا اس حوالے سے ازالہ ہونا چاہیے کہ جس صوبے میں یہ پارٹی سال 2013 سے برسرِ اقتدار ہے یہاں دہشت گردی اور بدامنی کا سلسلہ بغیر کسی وقفے کے جاری ہے اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اس سنگین مسئلہ سے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی ۔

اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی حکومت کے ساتھ پی ٹی آئی کی جاری کشیدگی کے باعث سیکورٹی کے حالات بہتر ہونے میں کئی رکاوٹیں حائل رہی ہیں اس لیے ضروت اس بات کی بھی ہے کہ ملک اور صوبے کے عوام کے تحفظ کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی حکومت کے ساتھ تعلقات نارمل بنائے جائیں کیونکہ صوبے کے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر مختلف علاقوں میں کسی وقفے کے بغیر حملے نہ صرف جاری ہیں بلکہ دن بدن اس سلسلے میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آدھا خیبرپختونخوا مسلسل حملوں کی ذد میں ہے ۔ صوبے کے قبائلی علاقے اور جنوبی اضلاع میں ریاستی رٹ کو شدید نوعیت کے سیکیورٹی چیلنجز درپیش ہیں اس لیے لازمی ہے کہ مذکورہ آل پارٹیز کانفرنس میں نہ صرف یہ کہ سنجیدگی کے ساتھ عوام کے تحفظ کے امکانات کا جائزہ لیا جائے بلکہ ایک ایسے قابل عمل روڈ میپ پر بھی غور کیا جائے جس کے نتیجے میں اس سنگین صورتحال سے نکلا جائے ۔ اسی تناظر میں 26 جولائی کو طلب کئے گئے قومی امن جرگہ میں بھی تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی شرکت کو یقینی بنانے کا رویہ اختیار کریں تاکہ قومی اتفاق رائے سے معاملات کو سمجھنے اور بہتر بنانے کی کوشش کی جائے ۔

بہت سے حلقوں کا کہنا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور بعض دیگر گروپوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور پی ٹی آئی ، اس کی صوبائی حکومت بھی مجوزہ مذاکراتی عمل کی حامی رہی ہیں اس لیے ان ایونٹس میں مذاکرات کے آپشن کا بھی جائزہ لیا جائے ۔

(جولائی 23، 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts