خصوصی رپورٹ
گڈ طالبان کون ہیں ؟؟ کیا گڈ طالبان کا کوئی وجود بھی ہے یا یہ بھی پی ٹی ایم اور پی ٹی آئی کے سیاست دانوں کے بہت سے افسانوں میں سے ایک اور کہانی ہے؟؟
گڈ طالبان دراصل کوئی گروہ ہے یا کوئی تنظیم ؟
پچیس (25) جولائی 2025 کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا، علی امین گنڈاپور نے پشاور میں منعقدہ نام نہاد آل پارٹیز کانفرنس کے دوران “گڈ طالبان” کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہیں پاکستان کے خفیہ ادارے سپورٹ کر رہے ہیں۔
کیا یہ محض اتفاق ہے فتنہ الخوارج ، پی ٹی ایم اور پی ٹی آئی ، تینوں سابقہ طالبان کے ان ممبران کو ٹارگٹ کر رہے ہیں جو کہ ریاست کے سامنے سرنڈر کر چکے ہیں ؟
کیا پی ٹی ایم اور پی ٹی آئی پے فتنہ الخوارج کا پریشر ہے جو ان کو بار بار ایسے تمام سابقہ طالبان کو پولیس کے ذریعے فتنہ الخوارج کے حوالے کرنے کا کہتے ہیں تاکہ ان غیر مسلح سابقہ طالبان کو عبرت کا نشان بنا کے باقی خوارج کو پیغام دیا جا سکے کہ ریاست کا ساتھ نہ دیں
صوبائی حکومت نے سرنڈر ہونے والے طالبان کو ایک حکمت عملی کے تحت ہنر سکھا کے معاشرے کا باعزت رکن بنانا تھا- کیا صوبائی حکومت نے اپنا فرض پورا کیا ؟
صوبائی امن و امان کی بنیادی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہوتی ہے- اگر خیبر پختونخوا پولیس اور سی ٹی ڈی اپنا کام ٹھیک کر رہے ہوں تو فتنہ الخوارج اور گڈ طالبان کو وہ خود ہینڈل کر لیں جبکہ انٹیلیجینس ادارے خود ہی پیچھے ہٹ جائیں گے۔
آئیے، اس پس منظر میں اٹھنے والے چند اہم بنیادی سوالات اور ان کے جوابات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلا سوال: گڈ طالبان آخر ہیں کون اور یہ اصطلاح کن کے لیے استعمال کی جاتی ہے؟
جواب: گڈ طالبان ایک سیاسی اصطلاح ہے اور مندرجہ ذیل افراد کو عمومی طور پر “گڈ طالبان” کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔
وہ سابق طالبان یا شدت پسند گروہوں کے ارکان، جنہوں نے ماضی میں ریاست کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہوں اور اب کسی تخریبی سرگرمی میں ملوث نہ رہے ہوں، اور اب ایک پرامن شہری کے طور پر زندگی گزار رہے ہوں۔
وہ عناصر جو اب مقامی سطح پر قائم امن کمیٹیوں کا حصہ ہیں اور ریاست کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف عملی کردار ادا کر رہے ہیں۔
دوسرا سوال: اگر گڈ طالبان دہشت گردوں کے خلاف ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں تو پھر خیبر پختونخوا حکومت اور پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کو ان پر اعتراض کیوں ہے؟
جواب: خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی اور دہشتگرد عناصر کے مابین ایک مفاداتی رشتہ قائم رہا ہے، جہاں ایک جانب مالی فوائد حاصل کیے گئے، تو دوسری طرف دہشت گردی کی کارروائیوں کو سیاسی سرپرستی میسر آئی۔ نومبر 2021 میں “گڈ ول جیسچر” کے نام پر 100 سے زائد خطرناک قیدیوں کی رہائی اسی پالیسی کا شاخسانہ تھی، جن میں سے کئی نے بعد میں دوبارہ دہشت گردی میں حصہ لیا۔
عمران خان کی حکومت نے طالبان کے کئی افراد کو بارڈر کراس کر کے پاکستان آنے کی اجازت دی اور ان کے خلاف کارروائی سے روکا گیا۔ یہ عناصر بھی “گڈ طالبان” کی چھتری تلے متحرک ہوئے۔
سابقہ قبائل کے کئی موجودہ سیاستدانوں کے خوارج سے روابط ہیں ، نہ صرف ملاقاتیں بلکہ مالی معاونت (بھتہ) بھی فراہم کی جاتی ہے ۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے انکشاف کیا کہ خیبر پختونخوا کا ایک اعلیٰ عہدیدار ہر ماہ ڈیرہ اسماعیل خان میں خوارج کو باقاعدہ بھتہ دیتا ہے۔ سوال تو بنتا ہے کہ آخر ڈیرہ اسماعیل خان میں گنڈاپور خاندان کی املاک کا محفوظ رہنا محض اتفاق ہے؟
فتنہ الخوارج اور ریاست مخالف سیاستدان اُن طالبان سے انتقام لینا چاہتے ہیں جنہوں نے ان کا ساتھ چھوڑ کر ریاست کا انتخاب کیا۔ اس انتقام کا نشانہ اکثر وہ افراد بنتے ہیں جو اب امن قائم رکھنے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ حال ہی میں امن کمیٹی کے رکن تواب اور اس کے ساتھیوں کو محض اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ وہ خوارج کے راستے میں رکاوٹ تھے۔
تیسرا سوال: اگر گڈ طالبان واقعی گڈ ہیں تو بنوں میں انہیں گرفتار کیوں کیا گیا؟
جواب: بنوں اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں “گڈ” اور “بیڈ” طالبان کے درمیان فرق کا خاتمہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب مقامی سیاستدانوں اور پی ٹی آئی کے دباؤ پر ریاستی اداروں نے ان سابقہ طالبان ارکان کو گرفتار کیا، جو کئی سالوں سے امن قائم رکھنے میں سرگرم تھے۔
بکا خیل اور جانی خیل جیسے علاقے، جہاں ان گڈ طالبان کی موجودگی کے باعث خوارجین کا داخلہ ممکن نہ تھا، گرفتاریوں کے بعد دوبارہ دہشتگردوں کی آماجگاہ بن گئے۔
ان کارروائیوں سے امن کا توازن بگڑ گیا، اور خوارج نے اس خلاء سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
یہ صورتِ حال نہ صرف شدت پسند گروہوں کے لیے سازگار بنی، بلکہ بعض سیاستدانوں نے بھی اس انتشار کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔
چوتھا سوال: کیا ریاست گڈ طالبان کی حمایت کرتی ہے؟
جواب: یہ تاثر کہ ریاست گڈ طالبان کی حمایت کرتی ہے، درست نہیں۔ ریاست صرف اُن افراد یا گروہوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے جو ریاستی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں یا اس کے خلاف سرگرم ہوں۔
افواجِ پاکستان وطن کے تحفظ کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہیں، اور یہ بات واضح ہے کہ جو بھی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے گا، اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ خیبر پختونخوا حکومت کو چاہیے کہ “گڈ” اور “بیڈ” طالبان کی مبہم اصطلاحات سے نکل کر سنجیدہ گورننس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت کو مضبوط کرے، کیونکہ یہی غیر سنجیدگی نہ صرف صوبے کی سیکیورٹی بلکہ عام شہریوں اور مقامی معیشت کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہے۔