کالعدم ٹی ٹی پی نے گزشتہ روز ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں ایک جرگے کے تناظر میں ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جرگے کی تجاویز اور عوام کی خواہشات کا احترام کیا جائے گا اور یہ کہ عوام کے خلاف حملوں سمیت دیگر شکایات پر مشتمل کارروائیوں سے گریز کیا جائے گا تاہم ہو بہو انہی مسائل اور ایشوز پر کالعدم ٹی ٹی پی ہی کے ساتھ باجوڑ میں ہونے والے جرگے کے بارے میں نہ صرف ابہام موجود ہے بلکہ اس قسم کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈرز نے ریاست کے ساتھ مجوزہ تعلقات پر مبنی پیش کردہ تجاویز کو ماننے سے انکار کردیا ہے اور اپنے طور پر شرط رکھی ہے کہ ان کی بجائے فورسز علاقے سے نکل جائیں ۔
جرگہ ارکان اس ضمن میں میڈیا یا عوام کو تفصیل بتانے سے گریزاں ہیں جبکہ ماضی ( عمران دور حکومت ) میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ٹیموں کے ” سرخیل” اور صوبائی حکومت کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے ایک انٹرویو میں نہ صرف اس جرگے کا دفاع کیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ ان کی حکومت دیگر علاقوں کے عمائدین کے ساتھ بھی جرگے کررہی ہے اور یہ کہ ان جرگوں کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے ۔ انہوں نے یہ بتانے کی زحمت گوارہ نہیں کی ان جرگوں اور مجوزہ معاہدوں کو ریاستی اسٹیک ہولڈرز کی حمایت یا سرپرستی بھی حاصل ہے یا نہیں ؟ کالعدم ٹی ٹی پی نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران فورسز پر خیبرپختونخوا میں 11 حملے کئے ہیں ۔ سوات اور مہمند میں طالبان کی دوبارہ صف بندی اور حملوں کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں مگر صوبائی حکومت اور بعض پرو طالبان پارٹیاں طالبان کے نہ صرف جرگے کررہے ہیں بلکہ ان کی باقاعدہ منت سماجت بھی کی جارہی ہے ۔
اوپر سے یہ پروپیگنڈا بھی کیا جارہا ہے کہ فورسز ” گڈ طالبان” کی سرپرستی کرتی آرہی ہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ فورسز خیبرپختونخوا میں روزانہ کی بنیاد پر دہشت گرد حملوں کا نشانہ کیوں بنتی آرہی ہیں ۔ یہ سوال بھی حق بجانب ہے کہ اگر صوبائی حکومت یا بعض پارٹیوں نے عوام ، ریاست پر حملے کرنے والوں کے ” جرگے” ہی کرنے ہیں تو اس پراسیس کے دوران حملوں کی تعداد میں مزید اضافہ کیوں ہوا اور فورسز کی بجائے یہ عناصر حملہ آور گروپوں کی ترجمانی کیوں کررہے ہیں؟
دوسری جانب چیف منسٹر خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم ایک ایسی قوت ( طالبان ) سے جنگ لڑ رہے ہیں جس نے افغانستان میں سپر پاور کو شکست دی ہے۔ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ جب خود ایسے بیانات دیں گے تو پولیس سمیت دیگر سول اداروں سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ جانوں کی قربانیاں دیکر امن قائم کریں گے ۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اس بیانیہ ، جرگوں یا معاہدوں کو پاکستان کی ریاست کا مینڈیٹ حاصل نہیں ہے اور صوبائی حکومت سمیت بعض دیگر عناصر آپنے طور پر ان تمام سرگرمیوں اور رابطہ کاری میں مصروف عمل ہیں ۔ اس صورتحال نے حالات کو کافی پیچیدہ بنادیا ہے اور کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دیگر حملہ اور گروپوں کو ان کوششوں کے ذریعے ایک اسٹیک ہولڈر کے طور پر تسلیم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر ان حالات میں ریاستی ادارے واقعتاً جرگوں وغیرہ کی ضرورت محسوس کررہی ہیں تو اس کے لیے ایک ایسا منظم اور مربوط نظام تشکیل دیا جائے جس کو ریاست کا مینڈیٹ حاصل ہو ورنہ معاملات مزید پیچیدہ ہوں گے اور سوالات بھی اٹھائے جائیں گے ۔
(اگست 8، 2025)