بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
شمالی پاکستان میں کلاؤڈ برسٹ اور موسلادھار بارشوں سے پیدا ہونے والے طوفانی سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ نے ایک بار پھر قوم کو ناقابلِ بیان دکھ اور تباہی میں مبتلا کر دیا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق ان واقعات میں ۲۵۰ سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں خیبر پختونخوا، خصوصاً بونیر، سوات، باجوڑ اور مانسہرہ کے علاوہ گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے افراد شامل ہیں۔ باجوڑ میں تو المیہ اس وقت مزید گہرا ہو گیا جب ریلیف آپریشن کے دوران ایک ریسکیو ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال کی سنگینی کے باعث ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
ان علاقوں میں سیکڑوں افراد زخمی ہیں اور ایک بڑی تعداد تاحال لاپتہ ہے۔ پورے گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے، سڑکیں تباہ ہو گئیں اور کئی خاندان دور دراز وادیوں میں خوراک، پناہ اور طبی سہولیات کے بغیر محصور ہیں۔
ہر دردمند انسان کا دل ان متاثرہ خاندانوں کے لیے خون کے آنسو رو رہا ہے ـ جو زندہ بچ گئے ہیں وہ اپنی بربادی اور اپنوں کی المناک موت کا سوگ منا رہے ہیں، اور اپنے پیاروں کو مٹی اور ملبے میں تلاش کر رہے ہیں۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ ہمارے پاکستانی بھائی بہن ہیں جن کی زندگیاں چند ہی لمحوں میں اجڑ گئیں۔
آج سیاست، ذاتی دشمنیاں یا پارٹی ایجنڈے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اصل چیز انسانیت ہے۔ پوری قوم کو سیاسی وابستگیوں، صوبائی سرحدوں اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر متحد ہونا ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں، اپوزیشن، سول سوسائٹی اور نجی شعبہ ، سب کو اپنے وسائل اکٹھے کر کے متاثرین کی مدد کرنی چاہیے۔ ہر خیمہ، ہر کمبل، ہر کھانا، ہر دوا اور ہر ریسکیو آپریشن قیمتی ہے۔
قدرتی آفات نہ سیاسی جماعتوں کو پہچانتی ہیں اور نہ علاقوں کی تفریق کرتی ہیں۔ جب پانی کا ریلا آتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ گاؤں والوں نے کس کو ووٹ دیا۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہے جو ہم سب کا ہے، اور ہماری مدد بھی اجتماعی اور یکساں ہونی چاہیے۔
ریسکیو ٹیمیں، رضاکار اور مقامی لوگ جان بچانے کے لیے دن رات سرگرم ہیں، لیکن تباہی کے پیمانے کو دیکھتے ہوئے ان کوششوں میں فوری اضافہ ناگزیر ہے۔ فوج، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)، صوبائی ڈیزاسٹر اتھارٹیز، پولیس اور مقامی انتظامیہ کو مکمل ہم آہنگی کے ساتھ ان علاقوں تک پہنچنا ہوگا جہاں سڑکیں بہہ گئی ہیں اور مواصلات منقطع ہیں۔
مگر یہ صرف فوری امداد کا وقت نہیں، بلکہ خود احتسابی اور گہری سوچ کا بھی لمحہ ہے۔ یہ پہلا سانحہ نہیں اور افسوس کہ اگر ہم نے رویہ نہ بدلا تو یہ آخری بھی نہیں ہوگا۔ ہر سال بارشیں سیلاب کی شکل اختیار کر کے سیکڑوں جانیں لے جاتی ہیں، ہزاروں افراد بے گھر ہوتے ہیں اور ملکی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا اپنا طرزِ عمل ہے۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی نے پہاڑوں کو ننگا کر دیا ہے، جس سے لینڈ سلائیڈنگ اور مٹی کے کٹاؤ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ دریاؤں، ندی نالوں اور قدرتی پانی کے راستوں پر غیر قانونی تعمیرات ، ہوٹل، بازار اور گھر ، نے پانی کے بہاؤ کو روکا ہے۔ چھوٹے نالے جو کبھی بے ضرر تھے، اب رکاوٹوں کے باعث مہلک ریلوں میں بدل گئے ہیں۔
انتظامیہ اکثر عام لوگوں کی تعمیرات ہٹا دیتی ہے لیکن بااثر افراد کی عمارتوں کو چھوڑ دیتی ہے۔ یہ دوہرا معیار عوام کے اعتماد کو توڑتا ہے اور آج کی تباہی کی بڑی وجہ ہے۔
اگر ہم آئندہ کے سانحات روکنا چاہتے ہیں تو یہ روش بدلنا ہوگی۔ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ دریاؤں اور ندی نالوں کے کنارے اور خطرناک مقامات پر بنی تمام غیر قانونی عمارتیں بلا امتیاز گرائی جائیں۔ سخت زوننگ قوانین نافذ ہوں اور ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ بڑے پیمانے پر شجرکاری کو وقتی نہیں بلکہ طویل مدتی منصوبہ بنایا جائے۔
حکومت کو جدید فلڈ وارننگ سسٹمز، مضبوط ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈھانچے اور ماحول دوست تعمیرات میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ یہ عیش و عشرت نہیں بلکہ بقا کی ضرورت ہے۔
بین الاقوامی برادری کو بھی پاکستان کی ماحولیاتی مشکلات کا ادراک ہونا چاہیے۔ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے، جبکہ کاربن اخراج میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم دوسروں کے کیے کی قیمت جانوں، گھروں اور روزگار سے ادا کر رہے ہیں۔ عالمی برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف فوری ریلیف میں بلکہ طویل مدتی ماحولیاتی منصوبوں میں بھی پاکستان کی مدد کرے۔
ملک کے اندر ہم سب کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔ متاثرہ علاقوں سے دور رہنے والے لوگ محض تماشائی نہ بنیں۔ عطیات، خوراک، کپڑے، دوائیں — ہر چیز قیمتی ہے۔ رضاکار گروپس کو افرادی قوت اور وسائل درکار ہیں۔ سوشل میڈیا پر مستند ریلیف مہمات کو اجاگر کرنا بھی مدد کا حصہ ہے۔
تباہ شدہ گھروں، ڈوبی ہوئی فصلوں اور غم زدہ خاندانوں کی تصاویر ہمارے لیے بیداری کی گھنٹی ہیں۔ اگر ہم پانی اترنے کے بعد دوبارہ معمول پر آ گئے تو یہ المیہ بار بار لوٹے گا۔
یہ سانحہ ہمیں صرف سوگ میں نہیں بلکہ عزم میں بھی متحد کرے۔ آج ہم بھرپور جذبے کے ساتھ متاثرین کی مدد کریں اور کل سے اس پاکستان کی تعمیر شروع کریں جو قدرتی آفات کے سامنے بے بس نہ ہو بلکہ مضبوط اور محفوظ ہو۔
ہمارے عوام اس سے کم کے ہرگز مستحق نہیں