عمرحیات یوسفزئی
پاکستان کی سیاست میں تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے عوام کو ایک نئی امید دی۔ لیکن تیرہ سالہ اقتدار کا یہ سفر کامیابیوں، ناکامیوں، تنازعات اور خود احتسابی کے تقاضوں کی ایک پیچیدہ داستان ہے۔ چونکہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ تیرہ سال سے مسلسل اقتدار اسی جماعت کے پاس ہے، اس لیے یہ تحریر مکمل طور پر پی ٹی آئی کی کارکردگی، اس کے چیلنجز اور اس کے انجام پر مرکوز ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2013 میں جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں اپنی پہلی صوبائی حکومت بنائی۔ یہ پاکستانی سیاست میں ایک نئی جماعت کی آمد تھی، جس نے عوام میں تبدیلی کی امید جگائی۔ پرویز خٹک وزیراعلیٰ بنے، اور پارٹی کے اندر اختلافات نہ ہونے کے برابر تھے۔ عوام کی توقعات عروج پر تھیں کہ یہ جماعت روایتی سیاست کو بدل کر رکھ دے گی۔
تعلیم میں اصلاحات کا نعرہ بلند کیا گیا، اور مانیٹرنگ سسٹم جیسے اقدامات متعارف کرائے گئے، لیکن نتائج توقعات سے کم رہے۔ صحت کے شعبے میں صحت کارڈ ایک قابلِ تحسین اقدام تھا، بی آر ٹی جیسے منصوبوں پر کرپشن کے الزامات نے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ اس کے باوجود، پی ٹی آئی کی نظریں اب صرف خیبر پختونخوا تک محدود نہ تھیں؛ وہ پورے پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے کی خواہشمند تھی۔ اس مقصد کے لیے صوبائی کارکردگی کی پروجیکشن پر اربوں روپے خرچ کیے گئے، اور میڈیا کی حمایت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
سن 2018 کے اوائل میں عمران خان کی بشریٰ بی بی سے شادی ہوئی۔ جولائی 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے وفاقی سطح پر کامیابی حاصل کی اور وفاقی حکومت بنائی۔ تاہم، یہاں سے پارٹی کے اندر اختلافات اور تنازعات نے سر اٹھانا شروع کیا۔ خاص طور پر پنجاب کی حکومت میں بشریٰ بی بی کی مداخلت نے ایک نیا تنازع کھڑا کیا۔ عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا گیا، جنہیں ناقدین نااہل قرار دیتے تھے۔ بشریٰ بی بی حکومتی فیصلوں، خاص طور پر پنجاب میں تقرریوں اور پالیسیوں میں غیر ضروری اثر و رسوخ استعمال کر رہی تھی۔ اس نے نہ صرف پارٹی کی ساکھ کو متاثر کیا بلکہ عوام اور اداروں کے درمیان بداعتمادی کو بھی جنم دیا۔
پنجاب میں بدعنوانی نے بھی سر اٹھایا۔ عثمان بزدار کی قیادت میں ترقیاتی منصوبوں پر سوالات اٹھے، اور انتظامی نااہلی کی شکایات عام ہوئیں۔ وفاقی سطح پر بھی بشریٰ بی بی کی مداخلت کے قصے زبان زدِ عام ہوئے، جس سے پارٹی کی داخلی ہم آہنگی متاثر ہوئی۔ اسی دوران، خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک دوبارہ وزیراعلیٰ نہ بنائے جانے پر ناراض، جبکہ عاطف خان نے اپنی لابنگ شروع کی۔ نتیجتاً، محمود خان کو غیر متوقع طور پر وزیراعلیٰ نامزد کیا گیا۔ پنجاب میں شاہ محمود قریشی حلیم خان اور جہانگیر ترین جیسے رہنماؤں کی امیدیں بھی دم توڑ گئیں-2022 مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی تھی، اور کووڈ-19 نے معاشی مسائل کو مزید گھمبیر کر دیا۔ پی ٹی آئی کوئی قابلِ ذکر منصوبہ یا کارکردگی پیش نہ کر سکی۔
وزراء کے قلمدان تبدیل کیے گئے، مگر حالات سنبھل نہ سکے۔عدم اعتماد کے ووٹو سے پی ڈی ایم کی حکومت آئی، اور پی ٹی آئی خیبر پختونخوا اور پنجاب صوبائی اسمبلیاں تحلیل کی گئیں، اور مارچوں اور احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ چیئرمین کی گرفتاری کے بعد 9 مئی 2023 کو وہ واقعہ پیش آیا جو پاکستان کی تاریخ میں ناقابلِ فراموش ہے یہاں سے تحریک انصاف سے تاریک انصاف کا سفر شروع ہوا پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اداروں پر حملہ کیا۔ پارٹی رہنماؤں نے اس کی مذمت سے گریز کیا اور اسے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی۔ اس واقعے نے پی ٹی آئی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا اور اداروں کے ساتھ اس کے تعلقات کو ناقابلِ تلافی دھچکا لگا۔
آج عمران خان کو جیل میں دو سال ہو چکے ہیں۔ پارٹی کے کئی رہنما یا تو چھوڑ کر جا چکے ہیں یا قید ہیں یا دوسری جماعتوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ 9 مئی کے مقدمات میں کارکن جیلوں میں ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کا تیسرا دورِ اقتدار جاری ہے، مگر نہ کوئی بڑا منصوبہ نظر آتا ہے، نہ ترقیاتی کام، اور نہ ہی کوئی واضح حکمت عملی۔ بدامنی، بے روزگاری، اور کرپشن ہے- پارٹی رہنما ایک دوسرے کے پیچھے لگے ہیں، جبکہ عوام بدحالی کا شکار ہیں۔کوہستان کرپشن سکینڈل کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اسپتالوں میں بدعنوانی خیبر پختونخوا کتب بورڈ کرپشن محکمہ جنگلات میں مبینہ بدعنوانی حالیہ سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آئی نے اپنے مخلص کارکنوں کو بھی نظر انداز کیا، جس سے کارکنوں میں شدید ناراضی پائی جاتی ہے۔
پارلیمنٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرز نااہل ہے۔ ریاست یا وفاق کے خلاف کئی بار احتجاج کے نام پر ناکام کوششیں کیے جا چکے ہیں، جن میں بدقسمتی سے کارکنوں کی جانیں بھی ضائع ہو چکی ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ کسی کو اس کا کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ 5 اگست کو کشمیر سے یکجہتی کے دن اور 14 اگست کو یومِ آزادی پر احتجاج کا اعلان کیا گیا۔ اس سے عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں کہ آخر پی ٹی آئی کا ایجنڈا کیا ہے؟
تیرہ سال سے خیبر پختونخوا پر حکومت کرنے والی پی ٹی آئی بدامنی ختم کرنے، معاشی استحکام لانے، اور کرپشن کے خاتمے میں ناکام رہی ہے۔ مستقبل کیا ہوگا، یہ تو وقت ہی بتائے گا،فی الحال صوبے کے عوام اللہ کے رحم و کرم پر ہیں، اور پی ٹی آئی ایک بند گلی میں کھڑی ہے، جہاں سے نکلنے کا راستہ مزید مشکلات سے بھرا ہے۔