GHAG

مستقبل بینی کی ضرورت

اے وسیم خٹک

پاکستان ایک ایسی قوم ہے جو اپنی رنگارنگ تاریخ، گہری ثقافتی جڑوں اور نظریاتی ورثے پر فخر کرتی ہے۔ اس ملک کے لوگ اپنے وطن سے گہری محبت رکھتے ہیں، لیکن یہ محبت اکثر چند مخصوص لمحات تک ہی محدود نظر آتی ہے۔ جب قومی ترانہ بجتا ہے یا جب لوگ اجتماعی طور پر نماز کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں، تب پاکستانی قوم ایک ایسی تصویر پیش کرتی ہے جو اتحاد اور یکجہتی کی عکاسی کرتی ہے۔ لیکن جیسے ہی یہ لمحات گزرتے ہیں، وہ اتحاد جو دلوں کو جوڑتا ہے، سیاسی، علاقائی اور سماجی تقسیموں کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ پاکستانی قوم، جو اپنی تاریخ میں کئی بار مشکل حالات سے گزری ہے، مستقل طور پر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے میں ناکام رہی ہے، حتیٰ کہ جنگ جیسے نازک مواقع پر بھی۔

جب ہم قومی ترانے کی بات کرتے ہیں، تو یہ صرف ایک گیت نہیں، بلکہ پاکستانی قوم کی روح کی آواز ہے۔ حفیظ جالندھری کے الفاظ اور احمد غلام علی چھاگلہ کی دھن میں وہ جادو ہے جو ہر پاکستانی کے دل کو چھو لیتا ہے۔ چاہے وہ اسکول کی صبح کی اسمبلی ہو، قومی دن کی تقریب ہو، یا کوئی کھیل کا مقابلہ، جب یہ ترانہ بجتا ہے، تو ہر شخص سر فخر سے بلند کر کے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح، جب اذان کی آواز گونجتی ہے اور لوگ مساجد میں ایک صف میں کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے ہیں، تو وہ ایک عظیم اتحاد کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ لمحات عارضی ہیں۔ ترانہ ختم ہوتے ہی، یا نماز کے بعد، وہ یکجہتی جو نظر آتی ہے، روزمرہ کی سیاست، ذاتی مفادات اور گروہی تقسیموں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔

حال ہی میں پاک-بھارت تنازع نے اس بات کو ایک بار پھر واضح کیا کہ پاکستانی قوم کس طرح عارضی اتحاد دکھاتی ہے، لیکن اسے برقرار نہیں رکھ پاتی۔ جب یہ تنازع شروع ہوا، تو پہلے دن پوری قوم ایک پیج پر تھی۔ پاکستانی افواج کے ساتھ عوام نے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کا عزم کیا۔ سوشل میڈیا پر، خاص طور پر ایکس پر، پاکستانیوں نے اپنی افواج کی حمایت میں پوسٹس کیں، اور قومی پرچم کے ساتھ فخر کا اظہار کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب میں کہا کہ “پوری قوم افواجِ پاکستان کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔” لیکن یہ جذباتی اتحاد زیادہ دیر نہ چل سکا۔ چند دنوں کے اندر ہی سیاسی جماعتوں نے اس قومی ایشو کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ الزامات، جوابی الزامات، اور سیاسی بیان بازی نے اس اتحاد کو کمزور کر دیا۔ جو قوم کل تک ایک آواز تھی، وہ آج ایک بار پھر بٹ گئی۔

اب جب ہم 14 اگست 2025 کو اپنی 78ویں یومِ آزادی منا رہے ہیں، تو یہ دن نہ صرف آزادی کی خوشی کا ہے، بلکہ پاک-بھارت تنازع میں فتح کے جذبے سے بھی بھرپور ہے۔ پورے ملک میں تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں قومی پرچم لہرا رہے ہیں، ملی نغمے گونج رہے ہیں، اور شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس جشن کے موقع پر بھی ہماری تقسیم اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ پشاور، جو اپنی تاریخی اہمیت اور شہدا کی قربانیوں کی یادگاروں کے لیے جانا جاتا ہے، اس بار بھی سیاسی کھیل کا شکار ہو گیا ہے۔ صوبائی حکومت نے پشاور سپورٹس کمپلیکس میں 13 اگست کی شام کو ایک پروگرام کا اعلان کیا ہے، جبکہ پاکستانی فوج نے کرنل شیر خان شہید اسٹیڈیم میں ایک الگ پروگرام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک ہی شہر میں، ایک ہی دن، دو الگ الگ پروگرام۔ یہ صورتحال نہ صرف افسوسناک ہے، بلکہ اس بات کی غماز ہے کہ ہم کس طرح قومی مواقع کو بھی سیاسی رنگ دینے سے باز نہیں آتے۔

اس تقسیم کے پیچھے سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا کردار بھی واضح نظر آتا ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی نے 14 اگست کو سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کا بھی اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام اس قومی دن کے تقدس کو مجروح کرنے کی کوشش ہے۔ یومِ آزادی، جو قوم کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر شہدا کی قربانیوں کو یاد کرنے اور مستقبل کے لیے عہد کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر پشاور میں صوبائی حکومت اور پاکستانی فوج ایک مشترکہ پروگرام کا اہتمام کرتے، تو یہ نہ صرف قومی یکجہتی کی علامت ہوتا، بلکہ عوام کے لیے ایک پرجوش اور متاثر کن تجربہ ہوتا۔ کرنل شیر خان شہید اسٹیڈیم جو شہید کی یاد دلاتی ہے اور پشاور جہاں ہر گلی قربانیوں کی داستان سناتی ہے، ایک مشترکہ تقریب قوم کے لیے ایک عظیم پیغام ہوتی۔ لیکن افسوس کہ خببر پختونخوا حکومت نے اس موقع کو بھی سیاسی اختلافات کی بھینٹ چڑھا دیا۔

یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ایک قوم جو اپنے ترانے اور نماز کے لمحات میں اتنی خوبصورتی سے متحد ہوتی ہے، وہ قومی مفادات کے لیے ایک ساتھ کیوں نہیں کھڑی ہوتی؟ پاک-بھارت تنازع ہو یا یومِ آزادی کی تقریبات، ہر بار سیاسی جماعتیں اپنے ایجنڈوں کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہ سیاسی کھیل نہ صرف قومی اتحاد کو کمزور کرتا ہے، بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے۔ پاکستانی قوم کی طاقت اس کی یکجہتی میں ہے، لیکن جب تک ہم اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے رہیں گے، یہ طاقت کمزور پڑتی رہے گی۔

پاکستان کو ایک مضبوط اور متحد قوم بننے کے لیے ہر سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفادات کو مقدم رکھیں۔ صوبائی حکومتیں اور قومی اداروں کو مل کر کام کرنا ہو گا تاکہ قوم کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جا سکے۔ یومِ آزادی جیسے مواقع کو سیاسی کھیل کا حصہ بنانے کی بجائے، انہیں قومی یکجہتی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم اپنے شہدا کی قربانیوں کو سچے دل سے خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہو گا۔ صرف اسی صورت میں ہم وہ پاکستان بنا سکتے ہیں جس کا خواب ہمارے قائدین نے دیکھا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts