پشاور ( غگ رپورٹ ) گزشتہ دو دنوں کے دوران خیبرپختونخوا کے تقریباً 6 اہم اضلاع میں فورسز اور شدت پسند گروپوں کے درمیان شدید نوعیت کی جھڑپوں اور حملوں کا سلسلہ جاری رہا جس کے نتیجے میں فریقین کے ایک درجن سے زائد افراد کو جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے اور سرکاری گاڑیوں سمیت دیگر املاک کو نقصان پہنچایا گیا ۔
دوسری جانب بلوچستان کے دو شورش زدہ علاقوں مچھ اور مستونگ میں فورسز کی کارروائیوں میں تقریباً 30 دہشت گردوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات زیر گردش ہیں ۔
پیر کے روز فورسز اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان لویر اور اپر دیر کے مختلف علاقوں میں شدید ترین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا جس کے نتیجے میں دو طرفہ طور پر درجنوں افراد نشانہ بنے ۔ حکام کے مطابق ان جھڑپوں میں نصف درجن کے قریب حملہ اور ہلاک کئے گئے تاہم دوسری جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ جن ہلاک شدگان کی تصاویر جاری کی گئی ہیں وہ ان قیدیوں کی ہیں جو کہ فورسز کی تحویل میں تھے ۔ لویر دیر میں کالعدم گروپ کی جانب سے مساجد سے باقاعدہ اعلانات کیے گئے کہ عوام خود کو گھروں تک محدود رکھیں ۔ بلامبٹ کا علاقہ لاجبوک میدان جنگ بنا رہا جہاں متعدد سرکاری گاڑیوں پر قبضہ کیا گیا اور پولیس کی ایک گاڑی نذرِ آتش کردی گئی ۔
دوسری جانب باڑہ میں ایک پولیس چوکی پر دستی بموں سے حملہ کیا گیا جبکہ ٹل ہنگو میں ایک بڑے حملے کے نتیجے میں ایف سی قلعہ کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں 3 ایف سی اہلکار شہید جبکہ 15 سے زائد زخمی ہوئے ۔ نماز جنازہ میں دوسروں کے علاؤہ وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے بھی شرکت کی ۔
کرم کے بعض علاقوں سے بھی متعدد جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئیں جہاں متعدد افراد کے جانی نقصان کی اطلاعات زیر گردش ہیں ۔ جمرود میں ایک پولیس اہلکار کو فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا تو جنوبی وزیرستان کے بعض علاقوں سے بھی جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئیں ۔ بنوں اور کرک میں بھی سی ٹی ڈی اور پولیس کی کارروائیوں کی اطلاعات زیر گردش رہی ہیں ۔
اس صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ فورسز کی قربانیوں اور کارروائیوں کا سلسلہ دہشت گردوں کے خاتمے تک جاری رہے گا جبکہ انسپکٹر جنرل پولیس ذوالفقار حمید نے کہا ہے کہ اپر دیر سمیت جہاں بھی دہشت گرد ہوں گے ان کو نشانہ بنایا جائے گا ۔