GHAG

78 سال بعد… بس کریں، اب آگے بڑھنا ہے!

78 سال بعد… بس کریں، اب آگے بڑھنا ہے!

بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی

اس سال ہم پاکستان کا 78واں یومِ آزادی منا رہے ہیں۔ اس عرصے میں یقیناً ہماری بہت سی کامیابیاں بھی ہیں جن پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں، مگر ساتھ ہی یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ ہمارے سامنے ایسے سنگین مسائل موجود ہیں جنہوں نے پوری قوم کو فکر میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہر پاکستانی یہ امید رکھتا ہے کہ ہم سب اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں، اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں، ان سے سبق سیکھیں اور قومی سفر کو درست رخ پر آگے بڑھائیں۔

یومِ آزادی پر جھنڈے لہرانا، ترانے گانا، آتش‌بازی کرنا اور سیلفیاں لینا ہماری خوشی کی علامت ہیں، مگر اس دن ہمیں یہ سوال بھی ضرور سوچنا ہوگا: وہ خواب، جسے حقیقت بنانے کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی، آج کہاں کھڑا ہے؟

78 سال قبل برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا۔ قائداعظم نے واضح کیا کہ پاکستان صرف زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے ، ایسا نظام جہاں انصاف ہو، مساوات ہو، خودداری ہو اور ہر شہری کو عزت و وقار کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہو۔

ہم نے بہت کچھ حاصل کیا: ہم ایٹمی طاقت بنے، دنیا کی بہترین فوج تیار کی، طب، تعلیم، کھیل اور فلاح میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ ہمارے نوجوانوں نے عالمی اداروں میں اپنی ذہانت کا لوہا منوایا، جس کی بے شمار مثالیں اور بے حساب نام ہماری تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے درج ہیں۔ یہ سب اسی مٹی کی خوشبو ہیں۔

مگر کیا ان کامیابیوں کے باوجود ایک عام پاکستانی کو انصاف، تحفظ اور باعزت زندگی ملی؟ ہماری سیاست ذاتی دشمنیوں اور مفادات کا کھیل بن چکی ہے، عدلیہ پر اعتماد ڈانواں ڈول ہے، میڈیا صحافت کے بجائے افواہوں اور تقسیم کا ذریعہ بن چکا ہے، اور عام آدمی بجلی کے بل، آٹے کی قطار اور دوا کی قیمت سے جنگ لڑ رہا ہے۔

آج بھی لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں، ہزاروں مریض علاج کے بغیر مر جاتے ہیں، کروڑوں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا یہ وہ پاکستان ہے جس کا خواب دیکھا گیا تھا؟

دہائیوں سے ہر ادارہ اور طاقت کا مرکز ملک کی زبوں حالی کا الزام دوسروں پر ڈالتا آیا ہے، مگر اپنی شراکت کو بھول جاتا ہے۔ سیاست دان فوجی مداخلت کو برا کہتے ہیں مگر اپنے مخالفین کو گرانے کے لیے جرنیلوں سے مدد لیتے ہیں۔ عدلیہ دباؤ کی شکایت کرتی ہے مگر غیر آئینی حکومتوں کو جواز فراہم کرتی رہی ہے۔ بیوروکریسی سیاسی مداخلت کا رونا روتی ہے مگر طاقتوروں کے سامنے جھک جاتی ہے۔ میڈیا، مذہبی ادارے اور دیگر سماجی ستون بھی موقع ملتے ہی اصول بھلا دیتے ہیں۔ فوج نے بھی اپنے دائرۂ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے سیاسی کھیل کھیلا اور جمہوری اقدار کو کمزور کیا۔

اگر پاکستان کو بچانا اور آگے بڑھانا ہے تو ہر قوت کو الزام تراشی چھوڑ کر خود احتسابی اپنانی ہوگی۔ حقیقی آزادی تب ہی آئے گی جب سب کردار دیانت، آئین کی پاسداری اور عوام کی خدمت کو سب سے مقدم رکھیں۔ یہ تبدیلی کا وقت ہے ، کسی اور کے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے۔

خصوصاً سیاست دانوں پر سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ احتجاج، الزام تراشی اور گالم گلوچ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سب مل بیٹھ کر مکالمہ کریں، اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور آئندہ کے لیے جرنیلوں کی کٹھ پتلی بننے کے بجائے عوام کی طاقت پر بھروسہ کریں۔ حکومت اور اپوزیشن مہذب جمہوریتوں کی طرح اپنا آئینی کردار ادا کریں اور ملک کے امن، ترقی اور خوشحالی کو اپنا محور بنائیں۔

جب سیاست دان اپنا قبلہ درست کر لیں گے تو بہت کچھ خودبخود درست ہو جائے گا ، میڈیا سنسنی کے بجائے شعور پھیلائے گا، عدلیہ غیرجانبدار ہوگی، جرنیل اپنی حدود میں رہیں گے، اور عوام کا اعتماد بحال ہوگا۔ اس ملک کی بھلائی صرف ایک دوسرے کے احترام اور ہر ادارے کے اپنے آئینی دائرۂ کار میں رہ کر کام کرنے میں ہے۔

ہم کب تک ماضی کی غلطیوں کو دہراتے رہیں گے؟ کب تک طاقت کے کھیل میں آئین اور اداروں کو روندا جائے گا؟ کب تک عوام کا اعتماد ٹوٹتا رہے گا؟ اب وقت ہے کہ ہم رکیں، سوچیں اور ایک نئی شروعات کریں۔ جی ہاں، ہمیں ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے، ایسا معاہدہ جو ماضی کو دفن کر کے مستقبل پر مرکوز ہو۔

ہمیں طے کرنا ہوگا کہ سیاست نفرت اور انتقام سے نکل کر عوامی خدمت اور مسائل کے حل پر مرکوز ہو۔ عدلیہ آزاد اور خودمختار ہو تاکہ انصاف میں تاخیر نہ ہو۔ میڈیا خبر کو امانت سمجھے، افواہ نہیں۔ ریاست ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرے جو جھوٹ اور فتنہ پھیلاتے ہیں۔

کرپشن کا خاتمہ محض نعرہ نہیں بلکہ مستقل مزاج، بلاتفریق احتساب سے ممکن ہے ، ایسا احتساب جو ہر طاقتور تک پہنچے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور تحفظ جیسے بنیادی حقوق ہر پاکستانی کو ملنے چاہییں، اور بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنایا جائے تاکہ مسائل کا حل نچلی سطح سے نکلے۔ اردو زبان کو علامتی نہیں بلکہ عملی قومی زبان بنایا جائے تاکہ ریاست اور شہری کا رشتہ مضبوط ہو۔

اداروں کے درمیان طاقت کی رسہ کشی نے ہمیں کمزور کیا ہے۔ اب ایک ایسا ماحول بنانا ہوگا جہاں ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں کام کرے اور سب قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیں۔

یہ ملک زرخیز ہے، اس میں صلاحیت اور محنت ہے ، بس اسے اتحاد، ایثار اور نیتِ خیر کی روشنی چاہیے۔ آج اگر ہم انا، تعصب اور ذاتی مفادات کو پیچھے چھوڑ کر ماضی کی تلخیوں کو دفن کر دیں اور صرف عمل سے بہتری لائیں تو کل کا پاکستان وہی ہوگا جس کا وعدہ تھا ، ایک فلاحی، مضبوط اور باوقار ریاست۔

ورنہ ہم بار بار وہی موڑ دیکھتے رہیں گے جہاں ہر نعرہ نیا ہوگا مگر راستہ پرانا، اور ہر تبدیلی محض چہرے کی تبدیلی رہ جائے گی، نظام وہی رہے گا۔

آیئے ، 14 اگست کو صرف جشن نہ منائیں، یہ تجدیدِ عہد کا دن ہو۔

بس کریں… اب آگے بڑھنا ہے۔

اٹھہتر(78) سال، اب کوئی بہانہ نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts