اے وسیم خٹک
گزشتہ روز، 14 اگست کو پورا پاکستان ایک جھنڈے تلے متحد تھا۔ آزادی کا جشن منایا جا رہا تھا، ہر طرف خوشی کا سماں تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے تھے، آتش بازی کی جگمگاہٹ اور قومی ترانوں کی گونج سے فضا معطر تھی۔ مگر یہ خوشی دیرپا نہ ثابت ہوئی۔ اچانک خیبر پختونخوا پر غم کے بادل چھا گئے۔ کلاؤڈ برسٹ کی صورت میں شدید بارشیں اور سیلاب نے صوبے کو ماتم کدہ بنا دیا۔ ایک ریسکیو ہیلی کاپٹر مہمند ڈسٹرکٹ میں گر کر تباہ ہو گیا، جس میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔جس پر پورے صوبے میں سوگ کا اعلان کردیا گیا ہے اور ہفتہ کے روز سرکاری دفاتر پر پرچم سر نگوں رہے گا ۔وزیر اعلی نے صوبے کے لئے ابتدائی طور پر پچاس کروڑ کی رقم مختص کردی ہے جو بونیر، باجوڑ، سوات بٹگرام کے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
یہ سانحہ صرف خیبر پختونخوا تک محدود نہیں رہا۔ گلگت بلتستان، بٹگرام، مانسہرہ، سوات، باجوڑ، بونیر، پیر بابا اور آزاد کشمیر کے کچھ اضلاع شدید طوفان اور سیلاب کی لپیٹ میں آ گئے رابطے منقطع ہو گئے، نالے پتھروں اور ملبے سے بھر گئے، گاؤں کے گاؤں ملیامیٹ ہو گئے۔ مجموعی طور پر 400 سے زائد اموات ریکارڈ کی جا چکی ہیں، سینکڑوں لاپتہ ہیں، اور خیبر پختونخوا میں 200 سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں، حالانکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے یہ 2010 کے بعد کا سب سے بڑا سیلاب ہے، اور بونیر کی تاریخ میں 60 سالہ ریکارڈ توڑ گیا ہے۔ابھی تک اطلاعات کے مطابق سیلاب کی تباہ کاریوں نے صوبے بھر میں ہلاکتوں کا سلسلہ شروع کر دیا، جہاں صرف بونیر میں ایک سو ستر لوگوں کی مرنے کی اطلاعات ہیں اور درجنوں لاپتہ ہیں مرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
خیبر پختونخوا ایک ایسا صوبہ ہے جو نہ صرف دہشت گردی کا شکار رہا ہے بلکہ قدرتی آفات سے بھی مسلسل دوچار ہے۔ دہشت گردی نے یہاں کی معیشت اور امن کو تباہ کیا، اور اب سیلاب جیسی قدرتی آفات نے باقی ماندہ امیدوں کو بھی دھو ڈالا۔ کرپشن کی بلند شرح نے ریسکیو اور بحالی کے کاموں کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ غریب عوام کی حالت زار دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے خدا خیبر پختونخوا بالخصوص پختونوں سے ناراض ہو، اور یہ تباہی اسی غضب کی نشانی ہو۔ مگر یہ صرف قدرتی آفت نہیں، انسانی کوتاہیوں کا نتیجہ بھی ہے۔ دریاوں اور نالوں پر تجاوزات نے پانی کے قدرتی راستوں کو تنگ کر دیا ہے۔ جہاں دریا کا راستہ 50 فٹ کا ہونا چاہیے، وہاں گھر، دکانیں اور ہوٹل بننے سے یہ 15 فٹ تک محدود ہو گیا ہے۔ نتیجتاً، ہر سال سیلاب نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر یہ تجاوزات نہ ہوتے تو شاید اتنا بڑا نقصان نہ ہوتا۔
اب وقت ہے کہ جشن آزادی کی طرح، اس سانحے سے نمٹنے کے لیے بھی اتحاد کا مظاہرہ کیا جائے۔ گورنر، چیف منسٹر اور وفاقی حکومت کو باہم مل کر کام کرنا چاہیے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)، پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) اور تمام مشینری کو متحرک کر کے صوبے کو بچانا ہو گا۔ فوری ریسکیو آپریشنز کے ساتھ ساتھ، لانگ ٹرم پالیسی بنائی جائے۔ دریاوں پر تجاوزات کو فوری طور پر ختم کیا جائے تاکہ پانی اپنے قدرتی راستے پر بہے۔ کیونکہ پانی اپنا راستہ خود بناتا ہے اور اپنی جگہ کسی کو نہیں دیتا۔
سیاست کو ایک طرف رکھیں، اب عوام کو بچانا ہے۔ ملک اور صوبے کی بقا کا سوال ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومت مل کر اس قدرتی آفت سے نبرد آزما ہوں۔ اگر اب بھی اتحاد نہ دکھایا گیا تو مزید تباہیاں منتظر ہوں گی۔ خدا ہم سب پر رحم کرے اور ہمیں ہدایت دے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کو دور کریں۔