GHAG

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: خدمت، تدبر اور سیاسی بصیرت کا نام

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: خدمت، تدبر اور سیاسی بصیرت کا نام

بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی

پختونوں کی سیاست اکثر خالی نعروں اور وقتی مقبولیت کا شکار رہی ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی ترقی پسند نظریات کے نام پر، اور کبھی “تبدیلی” کے نام پر عوام کو مختلف سمتوں میں دھکیلا گیا۔ اس رویے نے حقیقی رہنماؤں کی پہچان اور مستقل قیادت کے تسلسل کو مشکل بنا دیا ہے۔ تاہم، خیبر پختونخوا پاکستان کے کئی مشہور سیاسی رہنما پیدا کر چکا ہے جنہوں نے ملکی سیاست میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ خدائی خدمتگار تحریک کے بانی، عدم تشدد کے فلسفے کے علمبردار اور پشتون قوم پرست تاریخی رہنما خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کو ایک منفرد اور تاریخی مقام حاصل ہے۔ دیگر مؤثر مرحوم رہنماؤں میں خان عبدالولی خان، مولانا مفتی محمود، قاضی حسین احمد، اور حیات محمد خان شیرپاؤ کے نام نمایاں اور تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے گئے ہیں۔ موجودہ رہنماؤں میں مولانا فضل الرحمن، اسفندیار ولی خان، اور آفتاب احمد خان شیرپاؤ آج بھی سیاست میں مؤثر آوازیں اور مضبوط کردار ادا کر رہے ہیں۔

یہاں ہم آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی سیاست اور ان کے کردار کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ ایک زیرک سیاستدان، نفیس و نستعلیق انسان، شفیق و متعدل مزاج شخصیت، دوستوں کے دوست، عام زندگی میں سنجیدگی و متانت کا پیکر، مگر محفل یاراں میں زندہ دل، بذلہ سنج اور شگفتہ مزاج ـ یہ تمام خصوصیات آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی شخصیت کا حصہ ہیں۔ وہ خیبر پختونخوا اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ایک مضبوط ستون ہیں۔ ان کے بڑے بھائی، حیات محمد خان شیرپاؤ شہید، سیاسی بیداری کے اُس دور میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نہایت قریبی ساتھی تھے، جنہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کی سیاسی خدمات نے ایک ایسی روایت قائم کی جو بعد میں آنے والی نسلوں تک منتقل ہوئی۔

حیات خان شیرپاؤ اپنے وقت کے سب سے تعلیم یافتہ، بصیرت رکھنے والے اور پرکشش رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ خیبر پختونخوا (جو اس وقت شمال مغربی سرحدی صوبہ کہلاتا تھا) میں، جہاں روایتی قبائلی سیاست اور قوم پرستی کا غلبہ تھا، وہاں حیات شیرپاؤ نے اصلاحات، تعلیم، اور وفاقی ہم آہنگی کا پیغام دیا۔ انہوں نے زرعی اصلاحات، مرکزیت، اور پسماندہ طبقوں کی بہتری کے لیے نمایاں اقدامات کیے۔ 1975 میں جامعہ پشاور میں بم دھماکے میں ان کی شہادت پاکستان کی سیاست میں ایک دھماکہ خیز موڑ تھی۔ ان کے قتل نے نہ صرف پیپلز پارٹی کو خیبر پختونخوا میں ایک اعلیٰ پائے کے رہنما سے محروم کر دیا بلکہ صوبے میں سیاسی طاقت کا توازن بھی بدل دیا۔ ان کی موت نے ایک ایسا خلا پیدا کیا جسے آج تک مکمل طور پر پُر نہیں کیا جا سکا۔ اسی سانحے کے بعد ان کے چھوٹے بھائی آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے سیاست میں قدم رکھا، اور یوں شیرپاؤ خاندان کے سیاسی سفر کا دوسرا باب شروع ہوا۔

گو کہ آفتاب شیرپاؤ نے اپنے شہید بھائی کے سائے میں سیاست کا آغاز کیا، لیکن جلد ہی انہوں نے اپنی الگ شناخت بنائی۔ وہ فوج سے ریٹائرڈ افسر تھے، اور ان کی تنظیمی صلاحیت، مقامی مقبولیت، اور قومی منظرنامے پر متوازن طرزِ عمل نے انہیں پی پی پی میں ایک مضبوط مقام دلوایا۔ عوام سے جڑے رہنا، عوام میں رہنا اور عوامی رہنما کے طور پر پہچان بنانا ہی ان کی سب سے بڑی طاقت رہی۔ انتہائی ذہین، مستقل مزاج اور ہمیشہ پُرعزم رہنے والے آفتاب شیرپاؤ نے اقتدار میں آ کر صوبے اور عوام کے لیے ایسے بے شمار کام کیے جو آج بھی یاد رکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے دو بار خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے طور پر خدمات انجام دیں ـ پہلی بار 1988 میں اور دوسری بار 1994 میں۔ ان کے ادوار ایسے وقت میں آئے جب ملک شدید معاشی بحران، سیاسی عدم استحکام، اور شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا کر رہا تھا۔ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے صوبے میں ترقیاتی منصوبوں، امن و امان، اور مرکز سے وسائل کے حصول پر بھرپور توجہ دی، مگر اکثر انہیں مرکز اور صوبے کی ترجیحات میں توازن پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔ ان کا طرزِ سیاست حقیقت پسندانہ تھا، جو مفاہمت، انتظامی بصیرت اور تدبر پر مبنی تھا۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب صوبے کی ساری سیاست ان کے گرد گھومتی تھی ـ سیاست انہی سے شروع ہوتی اور انہی پر ختم ہوتی تھی۔

2000 کی دہائی کے آغاز میں، پارٹی کے اندرونی اختلافات اور کچھ عناصر کی سازشوں کے باعث ان کے اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان فاصلے پیدا ہوئے۔ محاذ آرائی کی بجائے انہوں نے پی پی پی سے علیحدگی اختیار کی اور اپنی جماعت بنائی، جسے بعد میں قومی وطن پارٹی (ق و پ) کا نام دیا گیا۔ آفتاب شیرپاؤ اُن چند سیاستدانوں میں سے ہیں جنہوں نے پارٹی چھوڑنے کے باوجود پرانی جماعت یا اس کی قیادت کے خلاف کبھی تلخ بات نہیں کی۔ آج بھی وہ پی پی پی کے کارکنوں کے دکھ سکھ میں شریک رہتے ہیں اور انہیں سینے سے لگاتے ہیں۔ قومی وطن پارٹی کا قیام محض ایک سیاسی فیصلہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک واضح اشارہ بھی تھا کہ وہ اب زیادہ توجہ خیبر پختونخوا کی سیاست اور پشتون مفادات پر مرکوز کر رہے ہیں۔

نائن الیون کے بعد کے دور میں، جب خیبر پختونخوا دہشت گردی اور شدت پسندی کا مرکز بنا، آفتاب شیرپاؤ ایک اہم وفاقی رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ 2004 سے 2007 تک انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، جہاں انہوں نے انسدادِ دہشت گردی، انٹیلی جنس روابط، اور قبائلی علاقوں سے متعلق پالیسی سازی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی ان خدمات کے باعث ان پر کئی بار دہشت گرد حملے کیے گئے، مگر وہ ہر بار نہ صرف بچ گئے بلکہ اور زیادہ حوصلے کے ساتھ عوامی سیاست میں واپس آئے۔

آفتاب شیرپاؤ کی سیاسی قوت کو بارہا آزمایا گیا ـ دہشت گرد حملے، سیاسی دھچکے، اور ووٹر کے بدلتے رجحانات ـ لیکن وہ ہر دور میں مضبوط اور فعال رہے۔ چارسدہ میں ان کا سیاسی قلعہ آج بھی قائم ہے، اور ان کا نام ایک مستحکم، تجربہ کار اور عوام دوست سیاستدان کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کی جماعت خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی پارٹی نہیں بنی، لیکن وہ بارہا اتحادی حکومتوں میں شامل رہے اور صوبائی سطح پر اثرانداز رہے ہیں۔ آفتاب شیرپاؤ کی سیاست روایتی عوامی مقبولیت سے زیادہ پسِ پردہ مذاکرات، اتحاد سازی اور ادارہ جاتی اثرورسوخ پر مبنی رہی ہے۔

ان کی سیاست خیبر پختونخوا کے سیاسی ارتقا کی ایک منفرد مگر جڑی ہوئی جہت کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان کی سیاست نظریاتی، اصلاح پسند، حقیقت پسند، علاقائی خودمختاری کی حامی اور عملی حکمت عملیوں پر مبنی ہے۔ ایک ایسے صوبے میں جہاں ہر انتخاب میں سیاسی وفاداریاں بدلتی رہتی ہیں، شیرپاؤ خاندان کی سیاسی میراث نے وقت کے امتحان کو برداشت کیا ہے۔ اگرچہ نئی جماعتیں، جیسے پاکستان تحریک انصاف، نوجوان ووٹروں میں مقبول ہوئیں، لیکن شیرپاؤ کا نام اب بھی ان ووٹروں کے دل میں زندہ ہے جو حیات شیرپاؤ کی قربانی اور آفتاب شیرپاؤ کی خدمات کو یاد رکھتے ہیں۔ ان کی سیاست صرف الیکشن جیتنے یا وزارتیں حاصل کرنے کی کہانی نہیں، بلکہ یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے کہ خیبر پختونخوا جیسے تاریخی، جغرافیائی اور تہذیبی لحاظ سے منفرد خطے میں مؤثر نمائندگی کا اصل مطلب کیا ہے۔

پختون عوام کو سیاسی شعور اور تاریخی بصیرت پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ صرف وقتی نعروں کے بجائے عملی منصوبہ بندی اور کارکردگی کی بنیاد پر قیادت کو پرکھ سکیں۔ ایسے رہنما جو وفاقی و صوبائی خودمختاری، تعلیم، معاشی ترقی اور امن پر مبنی پالیسی لائیں، ان کا ساتھ دینا ہی حقیقی تبدیلی کا آغاز ہو سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts

تحریکِ انصاف کا المیہ

شیراز پراچہ تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ یہ پوری پارٹی اور اسکی لیڈرشپ سکینڈل بنانے اور منفی پروپیگنڈا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ

Read More »