پشاور میں خیبرپختونخوا کے چیف منسٹر علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کا اجلاس طویل عرصے کے بعد منعقد ہوا جس میں متعدد وزراء ، مشیروں اور اعلیٰ سول ، ملٹری حکام کے علاؤہ پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عمر بخاری نے بھی شرکت کی ۔ خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی اجلاس میں نظر نہیں آئے جن کی موجودگی وفاقی حکومت کی نمائندگی کے تناظر میں اس اہم فورم کے لیے اہم سمجھی جاتی ہے ۔ ان کو دعوت نہیں دی گئی تھی یا انہوں نے شرکت نہیں کی اس بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں تاہم ان کی غیر موجودگی نے اس فورم کی نمایندہ حیثیت کو کافی متاثر کیا اور اس سے کوئی اچھا پیغام نہیں گیا ہے ۔ غالباً یہ دوسری یا تیسری دفعہ مشاہدے میں آیا کہ گورنر اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے ۔ یاد رہے کہ ابتدائی ادوار میں صوبائی اپیکس کمیٹی کے اجلاسوں کی صدارت گورنر صاحبان کیا کرتے تھے مگر بعد میں خیبرپختونخوا کے اندر یہ ” ذمہ داری” وزیر اعلیٰ نے اپنے سر لی حالانکہ پہلے والا طریقہ کار زیادہ مناسب لگتا تھا ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سیکیورٹی کے معاملات میں وفاقی حکومت کا کوئی کردار ہے ( جو کہ یقیناً ہے ) تو اپیکس کمیٹی میں ہونے والے فیصلوں اور اقدامات سے متعلق امور وفاقی حکومت کو کون پہنچائے گا اس کے لیے آئین میں گورنر ہی مجاز اتھارٹی ہیں مگر ان کو شاید حالیہ اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا ۔ اجلاس سے متعلق جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ نہ صرف ناکافی اور نامکمل ہیں بلکہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ وزیر اعلیٰ نے اتنے اہم ایونٹ کو اپنی پبلسٹی کے لیے استعمال کرتے ہوئے اسے ” ون مین شو ” بنانے کا فارمولا اختیار کیا جس کو کسی طور ایک سنجیدہ طرزِ عمل نہیں کہا جاسکتا کیونکہ صوبے کو درپیش سیکیورٹی صورتحال ، قبائلی علاقوں کے معاملات اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان موجود بداعتمادی کے تناظر میں ماہرین اور عوام اس اجلاس کے تناظر میں ایک جامع پلان یا پالیسی کی توقع کررہے تھے مگر ایسا نہیں ہوا جس سے ایک بار پھر یہ تاثر لیا گیا کہ شاید صوبے میں سکیورٹی اور انتظامی معاملات کے بارے میں سرے سے کوئی جامع پالیسی ہے ہی نہیں ۔
وزیر اعلیٰ نے اپنے ویڈیو پیغام میں وہی روایتی باتیں دہرائی ہیں جو کہ وہ کرتے آرہے ہیں ۔ انہوں نے ایک عجیب بات یہ کی کہ بعض عناصر مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں حالانکہ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد موصوف ہی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران گڈ طالبان کا الزام لگا کر ایک ایسی بداعتمادی کی بنیاد رکھی تھی جس کو سیکیورٹی اداروں پر ” خودکش حملہ” سے تعبیر کیا گیا تھا اور اس بیان یا الزام نے ریاست مخالف پروپیگنڈا اور حملہ اور قوتوں کے لیے آکسیجن فراہم کرنے کا راستہ ہموار کردیا تھا ۔
اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد ون مین شو والی ویڈیو میں اگر چہ وزیر اعلیٰ پچھلے بیانات سے کافی مختلف پوائنٹس کے ساتھ نظر آئے تاہم اس ایونٹ سے ایک روز قبل سیکورٹی سے متعلق ایک اہم اجلاس میں وزیر اعلیٰ نے کرفیو اور آرٹیکل 245 سے متعلق جو احکامات جاری کیے تھے وہ ریاست خصوصاً ملٹری اسٹبلشمنٹ کے خلاف کسی چارج شیٹ سے کم نہیں تھے ۔ اب یہ وزیر اعلیٰ ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ ان کے پہلے والے بیانات ( بلکہ الزامات) درست تھے یا اپیکس کمیٹی والی باتیں درست ہیں ؟
دوسری جانب اسی روز ہی یعنی 30 جولائی کو پشاور میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ایک نمایندہ ، منظم اور پر ہجوم ایونٹ کا انعقاد کیا گیا جس کو ” د امن غگ جرگہ” کا نام دیا گیا تھا ۔ اس میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور قبائلی عمائدین کے علاؤہ معاشرے کے مختلف طبقوں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ اس جرگہ میں مختلف شکایات ، معلومات اور تجاویز کا تبادلہ کیا گیا اور ایک باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں ریاستی اداروں سے امن کے قیام کے لیے مختلف جینوئن قسم کے مطالبات کیے گئے ۔ اس سے قبل اسی مہینے اے این پی نے بھی ایسے ہی ایک جرگے کا اہتمام کیا تھا جبکہ جے یو آئی نے بھی ایک قبائلی جرگہ بلایا تھا ۔ ان تمام جرگوں میں کی جانے والی بات چیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام میں خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے عملی اقدامات اٹھانے کے مطالبات کیے گئے ۔
اس ضمن میں گزشتہ تین چار روز کے دوران باجوڑ ، تیراہ ، کرم ، بنوں اور بعض دیگر علاقوں میں بھی مقامی جرگوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا کیونکہ بعض علاقوں میں مختلف واقعات کے باعث ان جرگوں یا مذاکرات کی ضرورت محسوس کی گئی تو بعض میں فورسز کی کارروائیوں کے تناظر میں بات چیت کی گئی ۔
اس تمام منظر نامے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے روایتی حربوں اور الگ الگ ایونٹس کے انعقاد کی بجائے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز ایک مشترکہ پالیسی اور فارمولے کے تحت صوبے کی سیکیورٹی صورتحال بہتر بنانے کا کوئی قابل عمل پلان تشکیل دیں ورنہ ہر دوسرے تیسرے دن اس قسم کی سرگرمیوں کے انعقاد سے نہ صرف یہ کہ لوگ تنگ آجائیں گے بلکہ ان ایونٹس کا کوئی مثبت نتیجہ بھی نہیں نکلے گا ۔
(جولائی 31، 2025)