اے وسیم خٹک
بونیر کی وادی، جو کبھی سرسبز کھیتوں، جھومتی ندیوں اور بچوں کی ہنسی سے جگمگاتی تھی، آج ایک سوگوار ماں کی طرح اپنے زخموں کو چھپائے خون آلود آنسو بہا رہی ہے۔ سیلاب کا ریلا، جو ایک بے رحم عفریت بن کر آیا، اس نے اس جنت نظیر کو ماتم کدہ بنا دیا۔ گھر ملبے کے ڈھیر بن گئے، کھیت کیچڑ کے تالابوں میں ڈوب گئے، اور وہ خواب جو بونیر کے لوگوں کی آنکھوں میں بسے تھے، پانی کی بے رحم لہروں میں بہہ گئے۔ ہر طرف موت کا سناٹا ہے، جو چیخوں اور نوحوں سے بار بار ٹوٹتا ہے۔ یہ زمین، جو کبھی زندگی کی گہوارہ تھی، آج اپنے ہی بچوں کے خون سے تر ہو کر کراہ رہی ہے۔
گاؤں پیشونی کی گلیوں میں خون اور کیچڑ کے دھبے ہیں، جو گویا زمین کی رگوں میں سمایا ہوا درد ہیں۔ گھروں کے کھنڈر، جن میں کبھی چہل پہل تھی، اب خاموشی سے اپنی تباہی کی داستان سنا رہے ہیں۔ وہی ایک ماں اپنی گود میں اپنے بچے کا بے جان جسم تھامے بیٹھی ہے، اس کی آنکھوں سے آنسو نہیں، خون بہہ رہا ہے۔ وہ چیخنا چاہتی ہے، مگر اس کی آواز گلے میں ہی دم توڑ دیتی ہے۔ ایک باپ، اپنے جوان بیٹے کے تابوت کو کندھا دیتے ہوئے، لرزتے قدموں سے چل رہا ہے، لیکن اس کی آنکھیں پتھر بن چکی ہیں۔ ایک شخص کس طرح میڈیا کو بتارہا ہے کہ گھر کے سترہ افراد کو دفن کر چکا ہوں تین ابھی لاپتہ ہیں ۔
ایک بیٹا باہر ملک سے آکر گھر اور گھر کے مکینوں کو ڈھونڈ رہا ہے نہ گھر ہے اور نہ گھر کے وہ مکین جس کے لئے اُس نے باہر ملک میں اتنا وقت گزارا تھا۔سینکڑوں کہانیاں ہیں سیکنڑوں دردناک نوحے ہیں جو ابھی سامنے آئیں گے ۔جب وقت مرہم رکھ دے گا ۔ہسپتالوں کے دروازوں پر لاشوں کے ڈھیر ہیں۔ زخمیوں کی تعداد اتنی ہے کہ نہ بیڈ بچے ہیں، نہ دوائیں۔ ایک کونے میں ایک بچی اپنی ماں کے سرد جسم کے پاس بیٹھی ہے، اس کے ننھے ہاتھ ماں کے چہرے کو چھو رہے ہیں، شاید وہ اب بھی امید کر رہی ہے کہ ماں اٹھ کر اسے سینے سے لگا لے گی۔ مگر وہ جسم اب کبھی نہیں اٹھے گا۔ ہسپتال کی راہداریوں میں چیخیں گونج رہی ہیں، اور ہوا میں ایک بدبو ہے۔موت کی بدبو، جو ہر سانس کے ساتھ روح کو چھیدتی ہے۔
بازار، جو کبھی زندگی سے بھرپور تھے، اب ویران ہیں۔ دکانیں، جن میں صبح سے شام تک ہنسی اور چہل پہل رہتی تھی، اب کیچڑ اور ملبے کے ڈھیر ہیں۔ ایک دکاندار اپنی تباہ شدہ دکان کے سامنے بیٹھا ہے، اس کے ہاتھوں میں اس کی زندگی بھر کی کمائی کے چند نوٹ ہیں، جو پانی میں بھیگ کر بے کار ہو چکے ہیں۔ کھیت، جو کسانوں کی امید تھے، اب پانی کے تالاب بن چکے ہیں۔ ایک کسان اپنی زمین کو دیکھ کر رو رہا ہے، اس کی آواز میں وہ درد ہے جو صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس کی روزی زمین سے وابستہ ہو۔
گاؤں کے چوک میں بوڑھوں کے ہاتھ کدال تھامے لرز رہے ہیں۔نوجوان قبریں کھودتے کھودتے تھک چکے ہیں اُن میں قبریں کھودنے کی طاقت ختم ہو چکی ہے، مگر لاشیں ہیں کہ کم نہیں ہوتیں۔ عورتیں، جن کے ہاتھ کبھی مہندی سے سجتے تھے، اب اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے سرد جسموں کو غسل دینے کے لیے کانپ رہے ہیں۔ ہر طرف ایک ہی آہٹ ہے: “کوئی ہے جو ان بے سہارا جسموں کو آخری سفر کے لیے تیار کرے؟” مگر جواب میں صرف خاموشی ہے، جو دل کو اور بھی چھلنی کر دیتی ہے۔
اس تباہی کے بیچ، پختون بھائیوں کا جذبہ اب بھی زندہ ہے۔ شہروں شہروں میں امدادی کیمپ لگ چکے ہیں، جہاں الخدمت سمیت دیگر تنظیمیں خوراک، کپڑوں، ادویات اور پینے کا صاف پانی لے کر پہنچ گئی ہیں۔ رضاکار رات دن متاثرین کے لیے کام کر رہے ہیں، زخمیوں کو ہسپتال پہنچا رہے ہیں، اور اپنے گھروں سے چادریں اور کپڑے جمع کر کے لاشوں کو کفن دے رہے ہیں۔ یہ کیمپ صرف امداد کے مراکز نہیں، بلکہ امید کے ٹھکانے ہیں، جہاں پختون ایک دوسرے کے زخموں پر مرہم رکھ رہے ہیں۔
مگر امداد کے باوجود، بونیر کی یہ سرزمین اب بھی اپنے زخموں سے کراہ رہی ہے۔ یہ سیلاب صرف گھروں اور کھیتوں کو نہیں بہا لے گیا؛ اس نے لوگوں کے دل سے سکون اور امید چھین لی۔ ہر طرف چیخیں، نوحے، اور ایک ایسی خاموشی ہے جو کانوں کو بہرا کر دیتی ہے۔ بونیر کے لوگ، جو اس آفت سے لڑ رہے ہیں، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھ رہے ہیں، مگر ان کے دل اب بھی اس سوال سے بوجھل ہیں: “یہ زمین کیوں اپنے ہی بچوں کا خون مانگ رہی ہے؟” اور اس سوال کے جواب میں، صرف ہوا کی چیخ اور زمین کی کراہ باقی ہے، جو کہتی ہے: “یہ گاؤں نہیں، یہ قیامت کا منظر ہے۔