اے وسیم خٹک
پاکستان کے شمالی علاقے دنیا بھر میں اپنی خوبصورتی، بلند و بالا پہاڑوں، برفانی گلیشیئرز، دلکش جھیلوں اور چشموں کے باعث مشہور ہیں۔ گلگت بلتستان، سوات، ناران، کاغان، ہنزہ، سکردو اور دیگر وادیاں نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی جنت سمجھی جاتی ہیں۔ مگر افسوس کہ ہر سال یہ خوبصورت علاقے کئی خاندانوں کے لیے ناقابلِ برداشت حادثات کی وجہ بھی بن جاتے ہیں۔
حال ہی میں پنجاب سے سیاحت کی غرض سے آنے والے چند نوجوانوں کی گاڑی سکردو روڈ پر حادثے کا شکار ہوئی، چاروں نوجوان جان سے گئے۔ اسی طرح ناران میں برفانی تودے کے نیچے تصاویر بنواتے ہوئے ایک فیملی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ تازہ ترین واقعہ سوات میں پیش آیا جہاں دریائے سوات میں طغیانی آنے سے ایک ہی خاندان کے پندرہ افراد بہہ کر جان سے گئے۔ یہ سانحے صرف افسوسناک نہیں بلکہ سبق آموز بھی ہیں، مگر بدقسمتی سے ہر سال ہم انہی غلطیوں کو دہراتے ہیں۔
شمالی علاقہ جات کی سیاحت کے دوران بے احتیاطی ہمارے رویوں میں شامل ہو چکی ہے۔ وادیوں میں سفر کرنے والوں کی اکثریت برفانی تودوں، گلیشیئرز اور آبشاروں کی خوبصورتی کو قریب سے دیکھنے کے چکر میں اپنی اور دوسروں کی جان کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ کبھی گلیشیئرز کی دراڑوں کو عبور کرنے کی کوشش، کبھی برفانی تودے کے نیچے تصاویر کھنچوانا، کبھی دریا کے بیچ بنے جزیروں تک پہنچ کر بیٹھ جانا ۔ یہ سب حرکات معمولی نہیں بلکہ حادثات کی بڑی وجہ ہیں۔
یہ علاقے اپنے قدرتی حُسن کے ساتھ اپنی سنگینی بھی رکھتے ہیں۔ پانی کا بہاؤ پلک جھپکنے میں بپھر سکتا ہے۔ گلیشیئرز کے پیچھے جمع برفانی تودے گرمی یا معمولی ارتعاش سے پھٹ سکتے ہیں۔ ان سے نکلنے والا پانی اور چٹانیں ہر چیز کو بہا لے جاتی ہیں۔ ان وادیوں کی سڑکیں بھی کسی خطرے سے کم نہیں۔ اندھے موڑ، تیز اُترائیاں، غیر متوقع لینڈ سلائیڈنگ اور غیر تربیت یافتہ ڈرائیور حادثے کا باعث بنتے ہیں۔
میدانی علاقوں کے لوگ اکثر پہاڑی ڈرائیونگ کی تکنیک سے واقف نہیں ہوتے۔ مسلسل بریک کے استعمال سے بریک فیل ہونے، سپیڈ کنٹرول نہ کرنے اور سامنے سے آنے والی گاڑی کا غلط اندازہ لگانے سے خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ چڑھائی پر گاڑی کی رفتار آہستہ اور اُترائی پر چھوٹے گئیرز یا انجن بریک استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ آٹو میٹک گاڑی والے ہِل ڈیسنٹ موڈ کا استعمال کریں۔ آل وہیل ڈرائیو گاڑیاں ان راستوں کے لیے بہتر رہتی ہیں۔
انتظامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ آبی گزرگاہوں پر ہوٹلز یا ریستوران بنانے والوں پر بھاری جرمانے لگائے جائیں۔ دریا کے اندر کرسیاں لگا کر ناشتہ کرانے والوں کو فوراً ہٹایا جائے۔ یہی عادتیں اور سہولیات ان حادثات کی بنیاد بنتی ہیں۔ آج جو سوات میں ہوا اس میں وہ ہوٹلز بھی برابر کے شریک ہیں جو پانی کے بیچ لوگوں کو بیٹھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کی سست روی بھی ذمہ دار ہے جو بروقت ریسکیو کرنے میں ناکام رہی۔
اس خوبصورتی کو محفوظ رکھنا ہے تو احتیاط کریں۔ تصویریں ضرور بنائیں مگر ہوش سے، دریا، تودے اور گلیشیئر کی خطرناک حدوں سے دور رہ کر۔ سیاحت کو شوق بنائیں، ضد نہیں۔ فطرت سے لڑائی جیتنے کی کوشش ہمیشہ جان لے جاتی ہے۔ یاد رکھیں، خوبصورتی کو فاصلے سے دیکھنا زیادہ پُرسکون اور محفوظ ہے۔