GHAG

ریسکیو 1122 کی گاڑیوں سمیت پختونخوا کی 38 سرکاری گاڑیاں تحویل میں موجود

صوبائی حکومت نے یہ قیمتی گاڑیاں ریلی میں استعمال کیں جو اسلام آباد،پنجاب پولیس نے قبضہ میں لیں،ذرائع

ریسکیو 1122 کے تقریباً 50 ملازمین بھی کئی دنوں سے زیر حراست ہیں،ذرائع

پشاور (غگ رپورٹ) خیبرپختونخوا کی حکومت کے سرکاری وسائل وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی خصوصی ہدایت پر اسلام آباد پر ہونے والی چڑھائی کے لیے استعمال کیے گئے جن میں مختلف اداروں کی 38 قیمتی گاڑیاں بھی شامل ہیں جو درجنوں سرکاری ملازمین کے ہمراہ اس وقت اسلام آباد اور پنجاب پولیس، دیگر متعلقہ اداروں کی تحویل میں ہیں۔

دستیاب معلومات کے مطابق اسلام آباد اور پنجاب پولیس، دیگر نے سرکاری گاڑیوں کو وفاق اور ایک صوبے پر ہونے والی سیاسی چڑھائی کے لیے استعمال کرنے پر خیبرپختونخوا کی جو 38  سرکاری گاڑیاں اپنی تحویل میں لی ہیں ان میں 17 صرف 1122 کی ہیں۔ ان گاڑیوں کے ساتھ ڈیوٹی دینے والے تقریباً 50 سرکاری ملازمین بھی زیر حراست ہیں جن کو چھڑانے کے لیے ڈی جی 1122 ایاز خان نے ڈپٹی ڈائریکٹر لیگل محمد وقاص کو خصوصی ٹاسک دیا مگر تاحال مسئلہ حل نہ ہوسکا کیونکہ وفاقی حکومت نے اس تمام معاملات کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی انکوائری کمیٹی قائم کی ہے۔

باخبر صحافی عرفان خان کے مطابق جو گاڑیاں زیر تحویل ہیں ان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تقریباً چھ ماہ قبل وفاقی حکومت کے ادارے این ڈی ایم ایف کی جانب سے فراہم کردہ وہ گاڑی بھی شامل ہے جس کی قیمت 8 سے 10 کروڑ کے درمیان بتائی جاتی ہے اور یہ گاڑی بری طرح ڈیمیج ہوگئی ہے۔

ایک اہم حکومتی عہدے دار کے مطابق اس وقت خیبرپختونخوا کے مختلف اداروں کے تقریباً 80 ملازمین وفاقی اور پنجاب حکومتوں کی تحویل میں ہیں جن میں ایک درجن سے زائد پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے دو وزراء کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے جن پر ریاست کے خلاف کارروائیوں اور سرگرمیوں کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں ۔ دوسری جانب وفاقی اداروں نے اسلام آباد میں واقع خیبرپختونخوا ہاؤس کو بھی ریاست مخالف سرگرمیوں کے استعمال کی پاداش میں سیل کردیا ہے ۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ پختونخوا ہاؤس کے علاوہ بعض سرکاری گاڑیوں سے اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے جس کو مذکورہ ریلی یا مارچ میں استعمال کرنا مقصود تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ بعض سرکاری ملازمین کے خلاف رولز آف بزنس کی خلاف ورزی پر دہشت گردی کے مقدمات بھی قایم کئے گئے ہیں ۔

یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ وزیر اعلیٰ، 3 صوبائی وزراء اور 6 ممبران اسمبلی کے موبائل فونز بھی تحویل میں لیے گئے ہیں اور گزشتہ شب صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ کا موبائل فون پختونخوا ہاؤس میں رہ گیا تھا اور یہ بھی کہ ان کے سٹاف ممبرز سے بھی فون لیے گئے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts