گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ایک خصوصی انٹرویو اور میڈیا ٹاکس کے دوران واضح کیا ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے لیے ” دودھ دینے والی گائے” ہے اس لیے وہ اسمبلی یا حکومت کی تحلیل کا عملاً تصور بھی نہیں کرسکتے تاہم اگر متحدہ اپوزیشن بدلتے حالات کے تناظر میں اس حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاتی ہے تو یہ اپوزیشن کا آئینی ، پارلیمانی اور جمہوری حق ہے اور اسی سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت جاری رہتی ہے ۔ گورنر کے مطابق وزیر اعلیٰ بڑھکیں مارتے ہوئے اپنی گرتی ساکھ کو بچانے کی روایتی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ان کو اپنی پارٹی کے اندر شدید اختلافات اور دباؤ کا سامنا ہے جبکہ مرکزی چیئرمین کے اختیارات کا یہ عالم ہے کہ ان کو صوبے کے بجٹ کی منظوری کا بھی علم نہیں تھا ۔ ایک سوال کے جواب میں گورنر نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ عین قانون اور الیکشن کمیشن کے طریقہ کار کے مطابق ہے اور ان نشستوں پر پی ٹی آئی کا کوئی حق نہیں بنتا تھا کیونکہ پی ٹی کے ارکان نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا تھا ۔
دریں اثناء گورنر نے سانحہ سوات کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی بیڈ گورننس اور نااہلی پر ڈالتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت میں اگر اخلاقی اور سیاسی جرآت ہوتی تو وزیر اعلیٰ اس سانحہ کے بعد مستعفی ہوگئے ہوتے کیونکہ اس واقعے نے پوری دنیا میں خیبرپختونخوا کی سماجی ساکھ اور ٹورازم کو شدید نقصان پہنچایاہے ۔
تلخ حقائق تو یہ ہیں کہ صوبائی حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں کو کسی بھی سطح پر قابل اطمینان نہیں کہا جاسکتا اور اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر سے وزیر اعلیٰ اور ان کی حکومت کے خلاف کرپشن کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ یہاں تک کہ بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان بھی کھل کر وزیر اعلیٰ اور ان کی حکومت کے خلاف نکل آئی ہیں ۔جہاں تک سانحہ سوات کا تعلق ہے کسی بھی جواز، دلیل یا بہانے کی آڑ لے کر صوبائی حکومت اس واقعے سے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی ۔ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے جیسے نسبتاً ” معقول شخص” نے یہ کہہ کر متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے کہ متاثرہ خاندان کو بچانا ممکن نہیں تھا حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کو عام سہولیات کی موجودگی کی صورت میں آسانی کے ساتھ بچایا جاسکتا تھا ۔
اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت کی کارکردگی دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے اپر سے صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت تمام قبائلی علاقوں اور اضلاع کو سیکیورٹی کے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے مگر صوبائی حکومت اندرونی اختلافات ، گروپ بندی اور کرپشن میں مصروف ہے اور اپر سے یہ اپنی ناکامیوں کا ادراک بھی نہیں رکھتی ۔
(جولائی 1، 2025)