GHAG

تنازعات پیدا کرنے کی عادت ؟

تنازعات پیدا کرنے کی عادت؟

عقیل یوسفزئی

خیبرپختونخوا گزشتہ ایک ہفتے سے دہشت گردی کی بدترین صورتحال سے دوچار ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کاؤنٹر ٹیررازم کے تحت کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے تاہم صوبے کے وزیر اعلیٰ اس سنگین صورتحال کا نوٹس لینے کی بجائے تنازعات سے بھرے بیانات دینے میں مصروف عمل ہیں اور ان کے دو تین حالیہ بیانات یا اعلانات پر دوسروں کے علاؤہ ان کی پارٹی کے اپنے سینئر رہنما اور عہدے داران بھی تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔

گزشتہ روز جہاں ایک طرف بنوں میں تاریخ کے سب سے بڑے آپریشن سے متاثرہ سیکیورٹی اہلکاروں کی عیادت اور شہداء کی جنازوں کا سلسلہ جاری رہا وہاں سوات کے تحصیل مٹہ کے علاقے گوالیری میں فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان ایک جھڑپ میں 4 سیکورٹی اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ نصف درجن دہشت گردوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات بھی زیر گردش رہیں ۔ اسی روز ضلع کرک کے علاقے بانڈہ داؤد شاہ میں پولیس پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں ایس ایچ او سمیت 3 اہل کار شہید کیے گئے تو دوسری جانب کرم میں ایک گاڑی کو نشانہ بناتے ہوئے 6 مسافروں کو شہید کیا گیا جس کے نتیجے میں نہ صرف کشیدگی دوبارہ جنم لینے لگی بلکہ مین شاہراہ کو بھی بند کیا گیا ۔ اسی طرح پشاور اور طورخم کے راستے افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل بھی جاری رہا جو کہ بذات خود صوبائی انتظامیہ کے لیے ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے ۔

مگر ان تمام تر تشویشناک اور سنگین حالات میں بھی وزیر اعلیٰ متنازعہ بیانات دیکر اپنے اور اور اپنی حکومت ، پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہے جس کا انہوں یہ کہہ کر خود اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی انتشار کا شکار ہوگئی ہے اور ان کے خلاف پارٹی کے اندر سے سازشیں ہورہی ہیں ۔ انہوں نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک سیلاب پر پریس کانفرنس کے دوران اپنی حکومت کی کارکردگی بتانے کی بجائے بے وقت کی ” راگنی” چھیڑتے ہوئے تجویز پیش کی کہ وہ نہ صرف یہ کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی حمایت میں مہم چلائیں گے بلکہ اس کی تعمیر کے لیے صوبے کی جانب سے ” چندہ ” بھی دیں گے تاکہ سیلابی صورتحال پر قابو پایا جاسکے حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں صرف دریائے سندھ کے پانی کو مینیج کیا جاسکتا ہے اور اسے پہلے ہی سے غازی بھروتہ پراجیکٹ کے ذریعے پنجاب کی سائیڈ پر منتقل کیا گیا ہے ۔

ان کے اس بیان پر نہ صرف سندھ حکومت ، پیپلز پارٹی ، اے این پی اور جے یو آئی نے شدید مخالفانہ ردعمل کا اظہار کیا بلکہ ان کی اپنی پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے علاؤہ تین اہم قائدین اسد قیصر ، سلمان اکرم راجہ اور جنید اکبر خان نے رسمی طور پر موقف اختیار کیا کہ کالاباغ ڈیم سے متعلق وزیر اعلیٰ کا بیان پارٹی پالیسی نہیں ہے اور یہ کہ قومی اتفاق رائے کے بغیر اس قسم کے کسی متنازعہ منصوبے کو شروع نہیں کیا جاسکتا تاہم وزیر اعلیٰ نے گزشتہ روز پھر سے اپنے ” عزم” کو دہرایا اور ساتھ میں وفاقی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کا اظہار بھی کیا حالانکہ وہ پہلے دن سے وفاقی حکومت کو فارم 47 کا ” نتیجہ” قرار دیتے رہے ہیں ۔ اس پر بھی ان کو اپنی پارٹی کارکنوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ گنڈاپور وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے والے ” کھلاڑی” ہیں ۔

قبل ازیں انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ خیبرپختونخوا میں تین چار ڈیمز زیر تعمیر ہیں مگر ان کے نام نہیں بتائے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعلیٰ ایک جنگ زدہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے متنازعہ ایشوز پر بات کرنے کی بجائے صوبے کی سیکیورٹی صورتحال ، بیڈ گورننس ، جاری کرپشن ، مہاجرین کی واپسی اور سیاسی کشیدگی جیسے مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کریں اور پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ اور نئے تنازعات پیدا کرنے کی اپنی عادت ترک کرکے ذمہ داری کا رویہ اختیار کریں تاکہ عوام کو تحفظ اور ریلیف دینے کا راستہ ہموار ہو ۔

(ستمبر 4، 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts

مقابل ہے آئینہ

ناصر علی سیّد یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد ادبی بیٹھک، برمنگھم کا ذکر دوست مہرباں اورِ پشاور کے جانے پہچانے ڈاکٹر شبیر

Read More »