GHAG

پروپیگنڈہ گردی جو سچائی کو نگلنے لگی ہے

پروپیگنڈہ گردی جو سچائی کو نگلنے لگی ہے

اے وسیم خٹک

پروپیگنڈہ گردی کا لفظ اگر آج کل استعمال کیا جائے دہشت گردی کی طرح تو یہ کوئی برا نہیں ہوگا۔ کیونکہ ملک بھر میں فیک نیوز کی فیکٹریاں لگائی گئی ہیں جن کا نتیجہ صرف اور صرف ملک میں انتشار اور افراتفری ہے۔ کچھ عناصر منظم انداز میں ریاستی اداروں اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کی یہ مہم رکنے کے بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑتی جا رہی ہے۔

بیرونِ ملک بیٹھے ان عناصر کے سرغنے ایک بیانیہ ترتیب دیتے ہیں، اور پھر ان کے مقامی “کی بورڈ وارئیرز” اسے آگے بڑھاتے ہیں۔ کبھی یہ سوشل میڈیا پر میمز بناتے ہیں، کبھی جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں، اور کبھی معروف شخصیات کو نشانہ بنا کر ان کے خلاف گمراہ کن مہم چلاتے ہیں۔ یہ کسی بھی موقع پر جھوٹ گھڑنے اور لوگوں کے ذہنوں میں زہر گھولنے سے دریغ نہیں کرتے۔ کبھی آصف علی زرداری کو صدارتی منصب سے ہٹا کر فیلڈ مارشل کو امیدوار بنایا جاتا ہے، کبھی نواز شریف کے ساتھ خفیہ ڈیل کی خبریں گھڑی جاتی ہیں، کبھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں، اور کبھی پاک فوج سے وابستہ افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ ان کی پروپیگنڈہ گردی مسلسل جاری رہے۔

اس مہم کی ایک تازہ مثال پاک فوج کی نوجوان خاتون افسر کیپٹن ایمان درانی کا وہ بیان ہے جو حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ ان کا کہنا تھا: “پاک فوج جو بھی کرتی ہے، وہ عوامی مفاد میں کرتی ہے۔” ساتھ ہی انہوں نے وضاحت بھی کی کہ “میں نے یہ نہیں کہا کہ وہ جو بھی کرتی ہے، وہ درست کرتی ہے، بلکہ کہا کہ وہ پبلک انٹرسٹ میں کرتی ہے۔” یہ ایک صاف گو اور مخلص اظہار تھا، لیکن اسے سوشل میڈیا پر توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، اور کیپٹن ایمان کو بدترین ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے خلاف نفرت انگیز بیانات، میمز، اور ویڈیوز بنائی گئیں جنہوں نے ثابت کیا کہ پروپیگنڈہ گردی کسی کی عزت، نیت یا وفاداری کا لحاظ نہیں رکھتی۔

یہ صورتحال اتنی سنگین ہو چکی ہے کہ اب ریاستی ادارے بھی حرکت میں آ گئے ہیں۔ حالیہ پیش رفت میں، اسلام آباد کے جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی درخواست پر پاکستان میں 27 یوٹیوب چینلز کی بندش کا حکم جاری کر دیا ہے۔ ایف آئی اے کے ذیلی ادارے نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ چینلز ریاستی اداروں، افسران اور عدلیہ کے خلاف جھوٹ، فیک نیوز، اور اشتعال انگیز مواد پھیلا رہے ہیں، جو عوام میں خوف، بے چینی اور بداعتمادی کو فروغ دے رہا ہے۔

عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں ان چینلز پر الزام لگایا گیا کہ وہ “انتہائی توہین آمیز اور اشتعال پیدا کرنے والا مواد” شیئر کر کے ریاست کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس کارروائی کے تحت یوٹیوب کی مالک کمپنی کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ان چینلز کو پاکستان میں بلاک کرے۔

ان 27 یوٹیوب چینلز میں عمران ریاض خان، صدیق جان، اوریا مقبول جان، حیدر مہدی، آصف اقبال، نیا پاکستان، ڈیلی قدرت، چارسدہ جرنلسٹ، سابر شاکر، مٹی اللہ جان، اسد طور، اور پی ٹی آئی کا آفیشل یوٹیوب چینل کے مشہور نام بھی شامل ہیں درخواست پر دستخط کرنے والے سب انسپکٹر ایم وسیم خان نے عدالت سے اپیل کی کہ ان چینلز کی بندش نہ صرف ریاستی سلامتی بلکہ سماجی ہم آہنگی اور قانون کی بالادستی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

یعنی اب سوشل میڈیا کو صرف اظہارِ رائے کا ذریعہ سمجھنا اب سادہ لوحی ہے۔ اسے بطور ہتھیار استعمال کرنے والے عناصر اپنے مخصوص ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے ہر حد پار کر چکے ہیں۔ ان کا ہدف صرف سیاسی مخالفین نہیں بلکہ فوج، عدلیہ، اور حتیٰ کہ وہ نوجوان افسران بھی ہیں جو خلوصِ نیت سے اپنے ادارے کی نمائندگی کرتے ہیں۔

یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی سابقہ حکومت کے آخری دنوں میں پروپیگنڈے کو ادارہ جاتی شکل دی۔ خیبر پختونخوا میں سوشل میڈیا مہمات کے لیے 11 ارب روپے مختص کیے گئے، جبکہ پنجاب میں گورنر ہاؤس کو سوشل میڈیا “انفلوئنسرز” کے لیے کھول دیا گیا۔ جب ان پر گرفت ہوتی ہے تو یہ معذرت خواہ بن جاتے ہیں، پارٹی ان سے لاتعلقی ظاہر کرتی ہے، اور وہی لوگ پھر نئے نام، نئے چینلز اور نئے بیانیوں کے ساتھ دوبارہ میدان میں آ جاتے ہیں۔

یہ پروپیگنڈہ گردی درحقیقت ایک نفسیاتی جنگ ہے جو دشمن کے بارود سے زیادہ خطرناک ہے۔ جب معلومات کا ہتھیار جھوٹ کی بنیاد پر استعمال کیا جائے تو وہ صرف سیاسی مخالفت نہیں رہتی بلکہ قومی وحدت پر حملہ بن جاتی ہے۔ اگر اس کے خلاف سخت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے وقت میں سچائی، حب الوطنی، اور ریاستی اداروں کی ساکھ جیسے الفاظ بھی مشکوک بن جائیں گے۔

ان حالات میں ریاست اور معاشرے کو یکجہتی، ہوشیاری اور حکمتِ عملی کے ساتھ اس فتنہ انگیزی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ تعلیمی ادارے، میڈیا ہاؤسز اور عوامی نمائندے اس جنگ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں — بشرطیکہ وہ اس خطرے کو محض ایک سیاسی تکرار نہیں، بلکہ ریاستی بقا کا مسئلہ سمجھیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts