تحریر: فہمیدہ یوسفی
ریاست اور سیاست کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ نکتہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی گفتگو میں واضح طور پر نمایاں ہوا۔ ان کا بیان کہ “ریاست ہے تو سیاست بھی ہے” ہمارے موجودہ حالات کے تناظر میں ایک یاد دہانی ہے کہ اگر ریاست مضبوط ہوگی تو سیاست بھی بہتر انداز میں آگے بڑھے گی۔
پشاور میں خیبرپختونخوا کے سیاسی قائدین سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے ایک اہم مسئلے کی جانب توجہ دلائی کہ عوام اور فوج کے درمیان رشتے کو توڑنے کے لیے بیرون ملک سے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت جھوٹا بیانیہ چلایا جا رہا ہے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو ہمیں اندرونی طور پر کمزور کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔
افغانستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ سے اپنے پڑوسی اسلامی ملک کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے، لیکن دہشت گردی کے مسئلے پر اختلافات برقرار رہیں گے جب تک کہ افغانستان اس معاملے کو مؤثر طریقے سے حل نہیں کرتا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان، خطے میں امن کے قیام کے لیے سنجیدہ ہے لیکن اپنے قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
جنرل عاصم منیر کی وضاحت کہ خیبرپختونخوا میں کوئی بڑے پیمانے پر آپریشن نہیں ہو رہا بلکہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر ٹارگیٹڈ کارروائیاں کی جا رہی ہیں، اس بات کی تصدیق ہے کہ ریاست دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں نہایت محتاط اور سنجیدہ ہے۔
ان کا یہ سوال کہ “کیا فساد فی الارض اللہ کے نزدیک ایک بہت بڑا گناہ نہیں ہے؟” ہمیں اجتماعی طور پر سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یکجا ہیں؟ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ریاست کی مضبوطی سب کی ذمہ داری ہے، اور ہمیں ہر طرح کے تعصب سے بالاتر ہو کر دہشت گردی کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔
نیشنل ایکشن پلان پر سب جماعتوں کا اتفاق حوصلہ افزا ہے، مگر اس پر عمل درآمد کی رفتار بڑھانا ضروری ہے۔ جنرل عاصم منیر نے غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ہمیں اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کر کے ان سے سبق لینا ہوگا تاکہ مستقبل میں ان سے بچا جا سکے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ ریاست کی مضبوطی ہی سیاست کی بنیاد ہے، اور ایک مستحکم ریاست ہی اپنے شہریوں کے بہتر مستقبل کی ضمانت دے سکتی ہے۔
(17 جنوری 2025)