پہلے مرحلے میں چار مختلف شورش زدہ علاقوں میں آپریشن کیے جائیں گے، ذرائع
ٹی ڈی پیز کے قیام کے لیے پانچ عارضی کیمپس قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے
گزشتہ روز کے حملے میں جاں بحق ہونے کے والوں کی تعداد 10 ہوگئی ہے، حکام
پشاور (غگ خصوصی رپورٹ) سول انتظامیہ اور عسکری حکام نے معاہدے کے باوجود کرم میں حالات بہتر نہ ہونے پر ضلع کے چار مختلف علاقوں میں آپریشن کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں مزید 3 علاقوں میں کارروائیاں کی جائیں گی۔ اس ضمن میں کرم کے ڈپٹی کمشنر نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں انتظامی کمیٹی قائم کرنے کے علاوہ ٹی ڈی پیز (عارضی طور پر بے گھر افراد) کے لیے چار مختلف مقامات یا عمارتوں میں عارضی کیمپس قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
سرکاری ذرائع نے اس ضمن میں رابطے پر بتایا ہے کہ پہلے مرحلے کے دوران بگن، مندوری، اوچت اور چھپری کے علاقوں میں آپریشن کیے جائیں گے۔ اس ضمن میں مذکورہ علاقوں کے تقریباً 2000 خاندانوں کو ٹی ڈی پیز کیمپوں میں منتقل کیا جائے گا۔ دوسرے مرحلے کے دوران اتنے ہی شورش زدہ علاقوں میں گرینڈ آپریشن کیا جائے گا اور ان مجوزہ علاقوں میں پارا چنار بھی شامل ہے۔
دوسری جانب گزشتہ روز متاثرہ علاقوں کو اشیائے خوردونوش اور ادویات پہنچانے والے ایک قافلے پر شرپسندوں کی جانب سے فائرنگ اور راکٹ حملوں کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 10 ہوگئی ہے جن میں دو سیکورٹی اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ باقی میں سے اکثریت ڈرائیورز کی ہے۔ ان حملوں کے بعد اعلیٰ حکام نے ایک مربوط آپریشن کا فیصلہ کرتے ہوئے صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کو درکار اقدامات کی ہدایات جاری کیں۔
اس صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے ٹل کے مقامی صحافی مصطفیٰ بنگش نے رابطے پر بتایا کہ معاہدے کے باوجود حالات میں کوئی واضح بہتری واقع نہیں ہوئی اور مسلسل کارروائیوں کے دوران سیکورٹی اہلکاروں کے علاوہ ان گاڑیوں کو بھی بھاری اسلحہ سے نشانہ بنایا گیا جو کہ گاڑیوں کے ایک قافلے کی شکل میں ضروریات زندگی کی اشیاء ٹل سے کرم کے مختلف علاقوں میں لے جارہی تھیں۔ ان کے مطابق بگن کے مضافات میں ہونے والے ان حملوں کے نتیجے میں نہ صرف سامان سے لدی گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا گیا بلکہ تقریباً ایک درجن افراد کو شہید کردیا گیا جن میں اکثریت عام سویلین یعنی ڈرائیورز کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو اس صورتحال پر سخت تشویش لاحق ہے اور بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ کرم کا مسئلہ اتنا مقامی اور سیدھا سادہ نہیں جتنا سمجھا گیا۔
مقامی صحافی شاہد حسین کے مطابق عوام کے علاوہ کرم کے تاجروں اور کاروباری حلقوں کو سخت تشویش کے علاوہ شدید نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے اور یہ تاثر بہت عام ہے کہ صوبائی حکومت یا تو امن کے قیام کی صلاحیت نہیں رکھتی یا حکومت کو معاملات درست کرنے سے دلچسپی نہیں ہے۔ ان کے بقول اگر یہ کہا جائے کہ معاملات کو کنٹرول کرنا سول انتظامیہ کے بس کی بات نہیں ہے تو غلط نہیں ہوگا۔