GHAG

عمران خان کی سزا کا پس منظر اور متوقع اثرات

بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کے ریفرنس میں مضبوط اور قابلِ اعتماد شواہد کی بنیاد پر سابق وزیر اعظم عمران خان کو 14 سال اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق، ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض سے زمین تحفے میں حاصل کرنے کے بدلے غیر قانونی 190 ملین پاؤنڈز کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا، جو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ضبط کیے تھے۔ یہ فیصلہ پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ میں ایک اہم موڑ سمجھا جا رہا ہے۔

تقریباً ایک سال تک جاری رہنے والی مقدمے کی سماعت میں دفاع کو شواہد پیش کرنے کا مکمل موقع دیا گیا۔ تفصیلی فیصلے میں واضح کیا گیا کہ تمام قانونی اصولوں کی پاسداری کی گئی اور پراسیکیوشن کی جانب سے پیش کردہ شواہد نے کرپشن کے الزامات کو ثابت کیا۔ ماضی کے مقدمات کے برعکس، اس کیس میں شفافیت اور قانونی تقاضوں کی تکمیل پر خاص زور دیا گیا، جس کی وجہ سے فیصلے پر اعتراض کی گنجائش کم ہو گئی۔

تاہم، پاکستان کی عدلیہ کو ہمیشہ سے اہم سیاسی شخصیات کے مقدمات میں جانبداری اور سیاسی محرکات کے الزامات کا سامنا رہا ہے۔ عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے زیادہ تر مقدمات سیاسی انتقام کے تحت چلائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب کسی سیاستدان کے خلاف الزامات مضبوط شواہد کی بنیاد پر ثابت ہوں، تب بھی ان کے حامی فیصلے کی غیرجانبداری پر سوال اٹھاتے ہیں۔ دوسری جانب، سیاستدان بھی اپنی بدعنوانیوں کو قبول کرنے کے بجائے ہمیشہ اپنی سزاؤں کو سیاسی سازش قرار دیتے ہیں، جس سے عوامی رائے مزید تقسیم ہو جاتی ہے۔

190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کے مقدمے میں بھی یہی خدشات موجود ہیں، لیکن شواہد کی مضبوطی اور دفاع کی کمزور حکمت عملی نے الزامات کو رد کرنے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ عمران خان کو صفائی پیش کرنے کے مکمل مواقع فراہم کیے گئے، لیکن وہ الزامات کے خلاف کوئی مؤثر دفاع پیش نہ کر سکے۔ اس فیصلے نے ان کے عوامی عہدے کے غلط استعمال اور ملک ریاض سے زمین و دیگر فوائد حاصل کرنے جیسے سنگین الزامات کو مزید تقویت دی۔

یہ فیصلہ پاکستان کے سیاسی اور عدالتی نظام کے لیے ایک اہم سوال چھوڑتا ہے:

کیا یہ احتساب کے عمل میں شفافیت اور غیرجانبداری کا آغاز ہے؟ یا یہ ماضی کی طرح سیاسی محرکات سے متاثر ایک اور کارروائی ہے؟ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام بدعنوانی کے مقدمات کو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر نمٹایا جائے۔

پاکستان میں کرپشن ایک سنگین مسئلہ ہے، جو سیاستدانوں کے ساتھ دیگر بااثر طبقات میں بھی جڑیں رکھتا ہے۔ سیاستدان عام طور پر اپنی بدعنوانیوں کو قبول کرنے کے بجائے مخالفین پر الزام تراشی کرتے ہیں۔ عمران خان کا اس فیصلے پر ردعمل بھی اسی رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکن دفاع میں ناکامی ان کے دعووں کو کمزور کرتی ہے اور گورننس میں شفافیت اور احتساب کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔

چونکہ عمران خان اور ان کے حامی خود کو روایتی سیاستدانوں سے مختلف اور صادق و امین قرار دیتے ہیں، یہ مقدمہ ان کے لیے اپنی صداقت ثابت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ انہیں یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ ملک ریاض سے زمین، اس کی تعمیر کے لیے رقم، اور بشریٰ بی بی کی ہیرے کی انگوٹھی کے حصول کی کیا وجوہات تھیں، یا پھر حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ ایسا اقدام پاکستان کی سیاسی ثقافت میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے اور عمران خان کو عوام کی نظر میں ایک اصولی رہنما کے طور پر پیش کر سکتا ہے۔

تاہم، صرف عمران خان اور بشریٰ بی بی ہی کیوں؟ پاکستان میں کرپشن کا دائرہ حکمرانوں، سیاستدانوں، بیوروکریسی، عدلیہ، جاگیرداروں، صنعتکاروں، تاجروں، اور میڈیا تک پھیلا ہوا ہے۔ اگر پاکستان کو بہتر مستقبل کی طرف لے جانا ہے، تو تمام طبقات کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہوگا اور احتساب کے نظام کو مضبوط بنانا ہوگا۔

عمران خان اور ان کی اہلیہ کی سزا کو مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر اعلیٰ عدالتیں شواہد کی بنیاد پر اس فیصلے کو برقرار رکھتی ہیں، تو یہ کرپشن کے خلاف ایک اہم پیش رفت ہوگی۔ تاہم، اگر یہ فیصلہ سیاسی مصلحتوں یا تکنیکی بنیادوں پر رد کر دیا جاتا ہے، تو احتساب کے عمل پر شکوک و شبہات باقی رہیں گے۔

یہ مقدمہ ایک اہم سبق فراہم کرتا ہے کہ احتساب کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر نافذ کرنا ہوگا، تاکہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہو اور قانون کی حکمرانی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو سکے۔ اگر یہ روایت برقرار رکھی جائے تو پاکستان میں شفاف اور جوابدہ گورننس کے قیام کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

(20جنوری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts