اے وسیم خٹک
عمران خان ایک وقت پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر سمجھے جاتے تھے، آج ایک ایسے مقام پر ہیں جہاں انہیں سیاسی تنہائی، عدالتی مقدمات اور عوامی اعتماد کے فقدان کا سامنا ہے اور اب وہ 14 سال کے لئے جیل کے اندر چلے گئے ہیں۔لوگ بہت کچھ کہیں گے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے مگر میں اس کے اردگرد پھیلے ہوئے لوگوں، یوٹیوب چینلز سے کمائی کرنے والے یوٹیوبر کو قرار دیتا ہوں جنہوں نے اپنے فائدے کے لئے عمران خان کا نام استعمال کیا۔
جعلی پروپیگنڈا کرنیوالے یوٹیوبرز کا کردار
جس طرح پشاور میں کپتان چپل اور دیگر برانڈ اس نام کی وجہ سے پہچانے گئے حتی کہ ہوٹل بھی کھولے گئے تاکہ خان کا نام کیش کیا جائے۔ اسی طرح سیاسی مشکلات کا ایک اہم پہلو ان کے گرد موجود یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کا کردار ہے۔ یہ افراد عمران خان کی مقبولیت کو اپنے مالی مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے۔ ان یوٹیوبرز نے خان صاحب کی سیاست کو ایک “سیاسی برانڈ” کے طور پر پیش کیا اور ان کے زوال کو بھی کمائی کا ذریعہ بنایا۔ ان کے بیانات اور کیسز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، اور ان کے حق میں چلائی جانے والی مہمات میں ہمیشہ اپنی ذاتی کمائی کی ترجیح رہی۔ ان افراد نے عمران خان کے حامیوں کو جھوٹے وعدے دے کر گمراہ کیا کہ خان صاحب جلد بازیاب ہوں گے اور تمام مسائل حل کر دیں گے۔ ان افراد نے عمران خان کے سیاسی نظریات اور تجزیوں کو سوشل میڈیا پر نشر کر کے اپنی شہرت اور آمدنی میں اضافہ کیا۔ ان یوٹیوبرز کے لیے عمران خان ایک “اے ٹی ایم” بن چکے تھے، جسے وہ اپنی کمائی کے لیے استعمال کرتے رہے۔یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب عمران خان اور ان کی پارٹی مشکلات کا سامنا کر رہی تھی، اور اس دوران ان کے حامیوں نے اپنی جیبیں بھرنے کی کوشش کی۔
عمران ریاض خان جیسے وی لاگرز نے سوشل میڈیا کو نہ صرف اپنی شہرت بڑھانے کے لیے استعمال کیا، بلکہ اس کے ذریعے اپنی آمدنی میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا۔ عمران ریاض خان کے یوٹیوب چینل نے گزشتہ سال تقریباً 500 ملین ویوز حاصل کیے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ پاکستانی عوام کے سیاسی رجحانات اور موضوعات کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی مقبولیت نے انہیں پاکستان کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے سیاسی تجزیہ کاروں میں شامل کیا۔
یوٹیوب سے ہونے والی آمدنی کے تخمینے کے مطابق، عمران ریاض خان جیسے وی لاگرز ماہانہ 20 لاکھ سے 50 لاکھ روپے تک کما گئے ہیں۔ ان کی آمدنی ویڈیوز پر آنے والے اشتہارات، ناظرین کی جغرافیائی تقسیم اور ویوز کی تعداد جیسے عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔ شہباز گل اور دیگر سیاسی شخصیات کے چینلز پر بھی لاکھوں ویوز آتے ہیں، لیکن ان کی مقبولیت اور آمدنی عمران ریاض خان سے کم ہے۔مگر اس نے بھی خان کے نام کا چورن امریکہ میں بیٹھ کر فروخت کیا۔اس گنگا میں بہت سے یوٹیوبر نے کروڑوں کی کمائی کی۔
پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اندرونی اختلافات نے بھی عمران خان کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ کئی سینئر رہنما، جنہوں نے برسوں خان کے ساتھ کام کیا، جب وقت آیا تو نہ صرف خاموش رہے بلکہ کئی نے علیحدگی اختیار کر لی۔ بعض رہنماؤں نے بیرون ملک جا کر عمران خان کے خلاف بیانات دینے شروع کر دیے، اور بعض نے خان کے کیسز میں ان کے حق میں گواہی دینے سے انکار کر دیا۔یہ سوال اٹھتا ہے کہ عمران خان کے قریبی ساتھیوں نے مشکل وقت میں ان کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟ کیا یہ افراد صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے پارٹی کا حصہ بنے تھے؟
عدالتی مشکلات
عمران خان کی عدالتی مشکلات نے ان کے حالات مزید پیچیدہ کر دیے۔ توشہ خانہ کیس سمیت دیگر مقدمات میں سزاؤں نے ان کے سیاسی مستقبل پر سائے ڈالے ہیں۔ ان کے حق میں گواہی دینے کے لیے نہ تو ان کی کابینہ کے ارکان آگے آئے اور نہ ہی پارٹی کے سینئر رہنما۔ یہ صورتحال اس بات کا مظہر ہے کہ عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف عدالتی ہتھیار استعمال کیے، اور آج وہ خود اسی عدالتی نظام کا سامنا کر رہے ہیں جس کا وہ ایک وقت میں سہارا لیا کرتے تھے۔
پی ٹی آئی کے کئی سینئر رہنماؤں کی خاموشی اور عدم حمایت نے عمران خان کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔ ان کی ترجیحات اپنی سیاسی حیثیت کو برقرار رکھنا تھیں، نہ کہ خان کا ساتھ دینا۔ یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ عمران خان کے ساتھ ان کے قریبی ساتھی بھی صرف اپنے مفادات کے لیے تھے۔
عمران خان کے مخالفین کے الزامات اور مقدمات نے ان کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا کیں۔ بہت سے لوگ ان حالات کو “مکافاتِ عمل” کے طور پر دیکھتے ہیں، جہاں عمران خان کو وہی حالات جھیلنے پڑ رہے ہیں جو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے لیے پیدا کیے تھے۔ ان کی پالیسیوں اور فیصلوں نے ایک مخالفانہ ماحول پیدا کیا، اور آج وہی ماحول خود ان کے لیے مشکلات کا سبب بن گیا ہے اور وہ 14 سال کے لئے اندر ہوگئے ہیں۔
(21 جنوری 2025)