عقیل یوسفزئی
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پشتون سرزمین نے ہر دور میں نامساعد حالات کے باوجود مختلف شعبوں میں بہت سی ایسی اہم اور غیر معمولی شخصیات کو جنم دیا جنہوں نے پورے خطے میں اپنے کردار اور خدمات کے باعث انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان شخصیات میں بابائے امن کے نام سے شہرت پانے والے پشتون قوم پرست رہنما باچا خان کو غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ ایک پسماندہ قبائلی معاشرے بلکہ ایک پرتشدد قوم کو سدھارنے اور ان کو تعلیم اور امن کا درس دیتے میدان میں نکل آئے تو اس فلسفے اور راستے پر اپنی وفات تک ثابت قدم رہے۔ یہ ایک تاریخی جبر ہے کہ اس آفاقی شخصیت کو برصغیر کی آزادی سے قبل اور اسکے بعد کی مختلف ادوار میں نہ صرف یہ کہ متنازعہ بنانے کی مسلسل کوشش کی جاتی رہی بلکہ ان کو “باغی” کہلانے کی بجائے “غدار” ثابت کرنے کی باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ یہ تمام الزامات اور “القابات” اس وقت غلط ثابت ہوگئے جب سال 1988 کو وہ پشاور میں وفات پا گئے اور ان کی دیدار اور نماز جنازہ میں شرکت کے لیے پاکستان کے اس وقت کے سول، ملٹری حکمرانوں، سیاسی، مذہبی قائدین، غیر ملکی سفیروں اور بھارت کے وزیر اعظم سمیت لاکھوں لوگ جناح پارک امڈ آئے۔ جب ان کو جلال آباد سپردِ خاک کرنے ایک تاریخی جلوس کی شکل میں لے جایا گیا تو ایک درجن سے زائد غیر ملکی وفود نے اس موقع پر ان کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کو بعد از وفات شاندار پروٹوکول سے نوازا۔
باچا خان پر اب تک درجنوں کتابیں لکھی گئی ہیں اور سینکڑوں مضامین اور مقالے لکھے گئے ہیں تاہم حال ہی میں دو نوجوان لکھاریوں عامر عالم اور احسان اللہ جان نے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور جامع تحقیق کی صورت میں ایک کتاب ترتیب دی ہے جس کے پڑھنے سے بہت کم وقت میں اس لیڈر کی زندگی، اہداف اور جدوجہد کی پوری کہانی سمجھ میں آجاتی ہے۔ 110 صفحات پر مشتمل “معتوب باچا خان” کی اس کاوش کی خاص بات یہ ہے کہ اس کو اردو زبان میں شائع کیا گیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ دوسری زبانوں اور قومیتوں کے قاریین کو پڑھنے اور سمجھنے کی سہولت حاصل ہوجائے گی۔ دونوں لکھاریوں نے کم عمری اور روایتی تجربہ کاری کے تصور کے برعکس ڈیٹا، حوالہ جات اور واقعات کی بنیاد پر تحقیق و تالیف کے درکار مگر جدید طرز تحریر کا فارمولا اپناکر ایک اچھی روایت کی بنیاد رکھی ہے۔
اس کاوش کے دوران باچا خان کی جدوجہد زیست کو دو اہم ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک وہ جب انہوں نے سماجی اصلاح اور تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کی اور برطانوی سامراج نے ان کو معتوب ٹھہرایا۔ دوسرا دور ان واقعات پر مشتمل ہے جب برصغیر آزاد ہوا اور باچا خان نے پہلی قانون ساز اسمبلی میں اپنے خطاب میں یہ موقف اختیار کیا کہ تمام تر خدشات کے باوجود اب پاکستان ان کا ملک ہے اور وہ اس ملک کی تعمیر وترقی میں آپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ تاہم اس کاوش میں مرحلہ وار تاریخی واقعات اور ریاستی اقدامات کا احاطہ کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان کی آزادی کے باوجود قیوم خان جیسے نام و نہاد “محب وطن” پاکستانیوں کی تنگ نظری اور انتقامی کارروائیوں کے باعث باچا خان اور ان کے ساتھیوں کو پہلے سے زیادہ “معتوب” قرار دیا گیا اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک چلتا رہا ۔
اس کاوش کا بنیادی حصہ باچا خان کی ان تکالیف، قید و بند، جلاوطنی اور صوبہ بدری کے واقعات پر مشتمل ہے جن کا اس لیڈر اور ان کے خاندان، ساتھیوں نے مختلف ادوار میں سامنا کیا۔
اس بات یا بحث سے قطع نظر کہ ہر شخصیت، تحریک اور سیاسی پارٹی کی طرح باچا خان اور ان کی تحریک کے بارے میں بھی مختلف حلقے مختلف خیالات کا اظہار کرتے نظر آئے اور نظر آئیں گے تاہم اس تاریخی حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ باچا خان اور ان کے ساتھیوں نے اس پورے خطے کی معاشرت اور سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور جب ہم اس خطے خصوصاً پشتون بیلٹ میں جاری شدت پسندی اور بدامنی کا ایک ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں تو ایسے لیڈروں کے وژن اور جدوجہد کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتے ۔
آج ایک بار پھر خیبرپختونخوا سمیت پوری بیلٹ کو سیکورٹی اور پراکسیز کی ایک نئی لہر اور چیلنجر کا سامنا ہے۔ ایسے میں اس قسم کے امن پسند لیڈروں اور ان سے جڑی سیاسی تحاریک کو یاد کرنے اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ مذکورہ دونوں نوجوانوں کی اس کاوش سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ ہماری نئی نسل اپنی تحریروں میں تحقیق کی ضرورت اور اہمیت کا ادراک رکھتی ہے اور اگر ان کو مواقع فراہم کیے جائیں تو یہ اس مشکل فیلڈ میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے خود کو منوا سکتے ہیں۔