ساجد ٹکر
ادائیں تو اس حکومت کی بے شمار ہیں اور ہر ادا ایسی ہے کہ جس پر جی وار کرنے کو جی کرتا ہے۔ لیکن اس حکومت کی ایک ایسی ادا بھی ہے جس کو ہم اداؤں کی ملکہ کہہ سکتے ہیں۔ ہم اس انوکھی ادا پر پوری ادا کے ساتھ لکھنے کا ارادہ کر چکے ہیں۔
اس انوکھی ادا کی جانب جس پر ادائیں بھی نازاں ہیں۔ ہم نازاں کی جگہ لفظ “نالاں” لکھنا چاہتے تھے لیکن پتہ نہیں کیوں ہمارے سامنے اردو زبان کے عاشق معروف براڈکاسٹر ضیا محی الدین آگئے اور ہمیں ایسا لگا کہ اس لفظ سے ان کو تکلیف پہنچ سکتی ہے اس لئے ہم نے خود کو تکلیف میں ڈال کر اس لفظ سے اجتناب فرمایا۔ لیکن حقیقت تو حقیقت ہوتی ہے۔ آپ کچھ بھی کرلیں سامنے آ ہی جاتی ہے۔
ہر حقیقت خوبصورت بھی نہیں ہوتی، مثلاً ہمارے صوبے کا قرضہ دن بدن بڑھ رہا ہے لیکن کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے مگر ایک بھدی اور خوفناک حقیقت۔ ہمارے صوبے میں امن کا جنازہ نکل رہا ہے لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی، یہ بھی ایک عجیب سی حقیقت ہے۔ ہمارے وزیراعلیٰ صاحب افغانستان سے تو بات کرنے کا شوشہ چھوڑتے ہیں لیکن اپنے صوبے کے اساتذہ کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں۔ صوبے کے اساتذہ پھولوں کے شہر میں پتھر کھانے پر مجبور ہیں اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ معماران قوم پر شیلنگ وہ حکومت کر رہی ہے جس نے اسلام آباد میں شیلنگ پر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ اب ہم یہاں اگر لفظ “منافقت” لکھنے کی جسارت کریں گے تو مرحوم ضیا محی الدین کے ساتھ ساتھ بابائے اردو مولوی عبدالحق کا بھی ناراض ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لئے منافقت سے بھی اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔ ہم بھی کیا سادہ بلکہ بھلکڑ قسم کے آدمی ہیں۔
ہم لکھنے بیٹھے تھے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی ایک انوکھی ادا پر کچھ لکھیں گے لیکن اپنی اداؤں میں ایسے گم گئے کہ بھول ہی گئے کہ ہمیں لکھنا کیا ہے۔ آپ ہماری اس ادا پر اگر ناراض ہوئے ہیں تو ہم تہہ دل سے شرمندہ ہیں اور معافی کے طلبگار ہیں۔ گر چہ یہاں یہ چلن ناپید ہوگئی ہے اور لوگ لوگ بڑے بڑے کھانڈ کرکے بھی معافی نہیں مانگتے بلکہ وہ جو اردو میں کہتے ہیں نا کہ چوری اور اوپر سے سینہ زوری۔
یہ بات اس لئے یاد آگئی کہ چند روز پہلے ہماری صوبائی حکومت کے ایک بڑے صاحب نے دعوی کیا تھا کہ قرضہ واپس کرنے والا ہمارا صوبہ پہلا صوبہ بن گیا۔ ہوا ہوگا، ہمیں اس کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔ لیکن ہمارا دل بڑا ہے اور ہم اس کار عظیم پر اپنی صوبائی حکومت کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ اس خبر کے بعد لیکن ہماری حیرانی کی انتہا مزید بڑھ رہی ہے کیونکہ قرضے تو ایسے کے ویسے ہیں۔ اوپر سے یہ بھی خبریں ہیں کہ محکمہ صحت میں کچھ غبن کی بیماری ہے۔ ساتھ ہی یہ منحوس سی باتیں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ آج کل صوبے بڑے بڑے ہسپتالوں میں سرنج اور تھرمامیٹر خود کے پیسوں سے لانے پڑتے ہیں۔ ہم اس بات کو ماننے کو تیار نہیں لیکن کیا کہیں لوگوں کا جو ایسی بے پر کی پھیلاتے ہیں۔ بہر حال اگر ایک طرف حکومت کی ادائیں ہیں تو دوسری طرف ہم بھی کم نہیں ہیں، ہماری ادائیں بھی قابل ستائش ہیں۔
یہاں ایک بار پھر ستائش کی جگہ لفظ “سرزنش” لکھنے کو دل مچلا لیکن ہمارے ادب، لحاظ اور مروت کی ادا آج پورے موج میں ہے اس لئے اس لفظ کو بھی لکھنے کو ترسا ہی دیتے ہیں۔ بھر حال، قصہ مختصر، مالیاتی لحاظ سے ہو یا سیاسی لحاظ سے، معاشی لحاظ سے یا امن و امان کے حوالے سے، اساتذہ ہوں یا ڈاکٹر، تاجر ہوں یا عوام، زندگی کے ہر طبقے سے جڑے لوگ مسائل سے از حد پریشان ہیں۔ لیکن آپ کمال دیکھئے ہماری پیاری اور دلاری حکومت کا کہ یہ مسائل ان کے لئے مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ ان مسائل سے ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اب یاد نہیں رہا لیکن کہیں کسی کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ جو لوگ کچھ نہیں کرتے وہ کمال کرتے ہیں۔ ہمارے پختونخوا کی حکومت بھی کمال کی ہے۔ پتہ نہیں جادو کی کون سی چھڑی ہے۔ کچھ لوگ ہماری انقلابی صوبائی حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ کچھ نہیں کر رہی لیکن لوگ لمبی تان کر سو رہے ہیں۔ چپ چاپ جاکر اپنی جیب سے سرنج یا تھرمامیٹر خرید کر لائیں گے لیکن منہ سے ایک لفظ نہیں کہیں گے کہ آخر یہ ظلم کیوں؟۔
صوبہ سینکڑوں ارب روپے کا مقروض، امن و امان کی صورتحال بدترین، لاء اینڈ آرڈر کے مسائل، صحت کارڈ کے باوجود صحت کے شعبے میں مسائل، یونیورسٹیوں کے اپنے مسائل، کارخانے بند، روزگار کا اتہ پتہ ہی معدوم، لیکن حکومت کا کمال دیکھئے کہ ترجیح یہ مسائل نہیں بلکہ ترجیح وہ پختونخوا بھی نہیں جس کے باسیوں نے ان کو تیسری دفعہ مسند اقتدار پر پورے آب و تاب کے ساتھ بٹھا دیا، تو پھر ان کی ترجیح کیا ہے؟ ترجیح یہ ہے کہ ان کی کوئی ترجیح ہی نہیں، ان کو پرواہ ہی نہیں ہے۔ ان کو نہ ووٹ کا ڈر، نہ اپنی شہرت کھونے کا خوف، نہ تنقید سے مسئلہ اور نہ خراب کارکردگی کی فکر۔ ہے نا یہ اس حکومت کی انوکھی ادا۔
(24 جنوری 2025)