بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
امریکہ میں حالیہ انتخابات اور ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاک امریکہ تعلقات کا موضوع زیر بحث ہے۔ پاکستان میں حکومتی سطح پر اس حوالے سے محتاط ردِ عمل پایا جاتا ہے اور یہ انتظار کیا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے چار سالہ دورِ حکومت میں دوطرفہ تعلقات کس سمت جائیں گے۔ تاہم، ٹرمپ انتظامیہ سے کسی مثبت تبدیلی کی امید کم ہی کی جا رہی ہے، کیونکہ ان کی غیر متوقع فطرت نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پالیسی سازوں کو محتاط کر دیا ہے۔
تاہم، پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ تعلقات شاذ و نادر ہی برابری یا باہمی احترام کے اصولوں پر مبنی رہے ہیں۔ اس کے برعکس، یہ تقریباً ہمیشہ ریاست ہائے متحدہ کے اسٹریٹجک مفادات کے تابع رہے ہیں۔ ان تعلقات کی تاریخ مسلسل اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امریکہ نے پاکستان میں انسانی حقوق، آزادیوں یا جمہوری نظریات پر اپنے جغرافیائی سیاسی مقاصد کو ہمیشہ ترجیح دی ہے۔
امریکہ اور پاکستان کا تعلق طویل عرصے سے لین دین پر مبنی شراکت داری کی کہانی رہا ہے، جس کی بنیاد اقدار کے بجائے مفادات پر رکھی گئی ہے۔ بارہا امریکی خارجہ پالیسی نے پاکستان کے جمہوری رہنماؤں کے بجائے فوجی آمروں کو ترجیح دی ہے اور جمہوریت کے بجائے اپنے فائدے کو اہمیت دی ہے۔ اہم عالمی تنازعات کے دوران امریکہ نے پاکستان کے آمرانہ حکمرانوں کو نمایاں حمایت فراہم کی، جبکہ اس کی سول حکومتوں کو نظرانداز کیا۔ یہ تعلقات بداعتمادی، غلط فہمی اور انحصار کی ایسی شراکت داری کو فروغ دیتے رہے ہیں، جو آج بھی دونوں ممالک کے تعلقات کی تشکیل کر رہے ہیں۔
سردجنگ کے دوران پاک امریکہ تعلقات
سرد جنگ کے دوران، پاکستان اپنے اسٹریٹجک اور جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے امریکہ کے لیے ایک اہم اتحادی بن گیا۔ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں، پاکستان نے SEATO اور CENTO جیسے امریکی قیادت میں بننے والے اتحادوں میں شمولیت اختیار کی، جن کے ذریعے امریکہ نے سوویت یونین کی توسیع کے خلاف ایک مضبوط دیوار قائم کی۔ ان اتحادوں کے نتیجے میں پاکستان کو، خاص طور پر پہلے فوجی آمر ایوب خان کے دور میں، بڑے پیمانے پر فوجی اور اقتصادی امداد فراہم کی گئی۔
ایوب خان نہ صرف کثیر امداد حاصل کرنے میں کامیاب رہے بلکہ امریکی صدور کی جانب سے گرمجوشی سے خوش آمدید بھی کیے گئے۔ 1961 میں ایوب خان کا دورہہ امریکہ، جہاں صدر جان ایف کینیڈی نے ان کی میزبانی کی، دونوں ممالک کے قریبی تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایوب خان کو کمیونزم کے خلاف جنگ میں ایک قابلِ اعتماد اتحادی کے طور پر سراہا گیا اور پاکستان امریکی فوجی اڈوں کا مرکز بن گیا۔ ان اڈوں نے اہم انٹیلی جنس آپریشنز، جیسے پشاور سے کیے گئے بدنامِ زمانہ U-2 جاسوسی مشنز، کو ممکن بنایا۔
1970ء کی دہائی میں پاک امریکہ تعلقات
1970 کی دہائی میں پاک امریکہ تعلقات نے ایک نیا رخ اختیار کیا جب پاکستان کے جمہوری طور پر منتخب رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے ایک آزاد خارجہ پالیسی اپنائی جو امریکی مفادات کے برعکس تھی۔ چین کے ساتھ ان کا الحاق، اسلامی دنیا کے ساتھ قریبی تعلقات، اور پاکستان کے جوہری پروگرام کے عزم نے واشنگٹن میں سخت تنقید کو جنم دیا۔ 1977 میں بھٹو کی معزولی اور جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد، فوجی حکومت کو امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہوئی۔
ضیاء الحق کا دورحکومت اور پاک امریکہ تعلقات
ضیاء کے دورِ حکومت میں، خاص طور پر سوویت افغان جنگ کے دوران، پاکستان امریکی پالیسی کا ایک اہم ستون بن گیا۔ پاکستان امریکی فوجی اور اقتصادی امداد کے اربوں ڈالر افغان جنگجوؤں تک پہنچانے کا ذریعہ بن گیا۔ ضیاء الحق کی آمرانہ حکومت، جبر کی پالیسیوں، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، اور ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی قتل کے باوجود، امریکہ نے ان مسائل کو نظر انداز کیا اور صرف پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت پر توجہ مرکوز رکھی۔ 1982 میں صدر رونالڈ ریگن کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں ضیاء الحق کا گرمجوش استقبال اس حقیقت کی علامت تھا کہ امریکہ نے جمہوری اصولوں پر اپنے مفادات کو ترجیح دی۔
سویت یونین کا خاتمہ اور پاک امریکہ تعلقات
سرد جنگ کے بعد کے دور میں پاک امریکہ تعلقات میں ایک اور اہم تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکی پالیسی سازوں کی نظر میں پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت کم ہو گئی، اور انہوں نے پاکستان کو میدان جنگ بنا کر اور انتہا پسندی کی آگ میں دھکیلنے کے بعد اس سے منہ موڑ لیا۔ 1990 کی دہائی پابندیوں اور کشیدہ تعلقات کا دور تھا، خاص طور پر پریسلر ترمیم کے تحت، جس کے ذریعے پاکستان کو اس کے جوہری پروگرام کی پاداش میں سزا دی گئی۔
اس دوران بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی سول حکومتوں کو امریکی امداد اور شراکت داری میں کمی کے علاوہ پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، جس نے پاکستان کے اقتصادی اور سیاسی مسائل کو مزید سنگین کر دیا۔ یہ دور پاکستان میں امریکہ کے خلاف نفرت اور بداعتمادی کے جذبات کو فروغ دیتا رہا، کیونکہ پاکستان کو افغان جہاد کے اثرات اور شدت پسندی کے عروج کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حالات میں امریکہ نے اپنے سابقہ اتحادی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کے بعد تنہا چھوڑ دیا، جس سے پاکستانی عوام میں مایوسی اور ناراضی مزید بڑھ گئی۔
نائن الیون کے بعد پاک امریکہ تعلقات
11 ستمبر کے حملوں نے پاکستان کو ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ جنرل پرویز مشرف، جنہوں نے 1999 میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سنبھالا تھا، کے تحت، پاکستان امریکہ کی قیادت میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک اہم اتحادی بن گیا۔ 2002 سے 2010 کے دوران، پاکستان نے 20 ارب ڈالر سے زائد کی امریکی امداد حاصل کی۔ مشرف، جو اپنے آمرانہ اقتدار، آئینی خلاف ورزیوں، انسانی حقوق کی پامالیوں، اور بے نظیر بھٹو کے قتل میں مبینہ ملوث ہونے پر تنقید کا سامنا کر رہے تھے، کو بار بار واشنگٹن میں ایک قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر خوش آمدید کہا گیا۔ 2006 میں صدر جارج ڈبلیو بش کا دورہ پاکستان اس بات کی مزید تصدیق کرتا ہے کہ اسٹریٹجک اہمیت کے ادوار میں امریکہ فوجی رہنماؤں کے ساتھ معاملات کو ترجیح دیتا ہے۔
یہ تاریخ اس بات کو واضح کرتی ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ہمیشہ اپنے اسٹریٹجک مفادات کو جمہوری اقدار پر فوقیت دی ہے۔ آمرانہ حکمرانوں جیسے ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کو نہ صرف بڑی مقدار میں امداد بلکہ بھرپور سفارتی حمایت بھی فراہم کی گئی، جبکہ جمہوری طور پر منتخب رہنماؤں جیسے ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو اکثر پابندیوں، لاتعلقی یا کھلی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
آمرانہ حکومتوں کے لیے امریکی حمایت نے پاکستان میں آمریت کو مضبوط کیا اور ملک کی جمہوری ترقی کو نقصان پہنچایا۔ یہ رویہ پاکستان کی سیاسی ساخت کو کمزور کرنے کا باعث بنا اور جمہوریت کے فروغ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوا۔
اس تناظر میں یہ کہنا بجا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات ایک پیچیدہ معمہ ہیں، جو زیادہ تر یکطرفہ امریکی مفادات پر مبنی رہے ہیں۔ ان تعلقات میں اعتماد اور مشترکہ اقدار کا فقدان رہا ہے، جس نے دونوں ممالک کے درمیان ایک دیرپا شراکت داری کی بنیاد بننے نہیں دی۔
اگرچہ امریکہ نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کچھ مثبت اقدامات کیے ہیں، لیکن ان کی شدت اور تسلسل اسٹریٹجک شراکت داری کی سطح پر ہمیشہ کم رہے ہیں۔ اس کے برعکس، ان تعلقات کا زیادہ تر دارومدار جغرافیائی سیاسی ضروریات پر رہا ہے، جس نے اعتماد کے فقدان کو مزید گہرا کیا ہے۔
اگر امریکہ واقعی ایک مستحکم اور جمہوری پاکستان چاہتا ہے، تو اسے اپنی تاریخی ذاتی مفادات پر مبنی پالیسیوں کو ترک کرکے، باہمی احترام، مشترکہ اہداف، اور جمہوری اداروں کی حمایت پر مبنی شراکت داری کی طرف بڑھنا ہوگا۔ پاکستان کو بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے، اپنی خودمختاری، وقار اور عزت پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستانی عوام ہمیشہ اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان کے رہنماؤں نے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے بار بار امریکی مطالبات کے آگے سر جھکایا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان، امریکہ کے ساتھ مستقبل کے تعلقات میں اپنی خودمختاری اور وقار کو اولین ترجیح دے، اور قومی مفادات کو مقدم رکھے۔
(24 جنوری 2025)