GHAG

ڈیجیٹل دہشت گردی ، پیکا ایکٹ اور اظہار رائے کے مبہم پیمانے

ایڈیٹوریل

دنیا بھر کو ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے جس طوفان کا سامنا ہے اس نے امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان کو بھی سیاسی اور سماجی سطح پر شدید نوعیت کے چیلنجر سے دوچار کردیا ہے اور بہت سے ممالک میں سوشل میڈیا کے خلاف ریاستی سطح پر گھیرا تنگ کرنے کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے۔ حال ہی میں جن ممالک میں بعض سوشل میڈیا ایپس اور پلیٹ فارمز کو محدود یا بند کیا گیا ہے ان میں امریکہ، کینیڈا، چین، فرانس، روس، یو اے ای اور ایران جیسے اہم ممالک شامل ہیں۔ مزید بھی پابندیاں لگانے کی بحث جاری ہے اور ایک حالیہ سروے میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان کے تقریباً 80 فیصد لوگ سوشل میڈیا کے منفی اثرات کی زد میں ہیں۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق تقریباً 60 فیصد نوجوانوں کو اس لہر نے فرسٹریشن سے دوچار کردیا ہے جبکہ 71 فیصد صارفین فیک نیوز اور پروپیگنڈا میٹیریل پر انحصار کررہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار انتہائی خطرناک صورتحال کی نشاندہی کے لیے کافی ہے، اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے دیگر متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے نہ صرف یہ کہ پیکا ایکٹ میں مزید ترامیم کرکے بعض سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے بلکہ اس تمام پروپیگنڈا مشینری کی مانیٹرنگ کے لیے اور خود مختار اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ اس معاملے پر اظہار رائے کے نام پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کا سلسلہ جاری ہے جبکہ صحافتی باڈیز نے بھی حسب معمول ان اقدامات کی مخالفت شروع کردی ہے ۔ وفاقی وزیر قانون اعظم تارڑ نے جمعہ کے روز ایوان کو بتایا کہ پیکا ایکٹ سے متعلق مختلف بلز متعلقہ کمیٹیوں کو بھیج دی گئی ہے اس لیے اپوزیشن پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے ان پارلیمانی فورمز پر بات کریں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی نامی جس پارٹی کے دور حکومت میں یہ ایکٹ متعارف کرایا گیا اور اس پر کافی پیشرفت ہوئی وہی پارٹی ایک ترمیم شدہ ایکٹ کی مخالفت میں پیش پیش ہے کیونکہ پاکستان میں فیک نیوز اور پروپیگنڈا مشینری کو فروغ دینے کا “کریڈٹ” اسی پارٹی ہی کو جاتا ہے۔

جہاں تک صحافتی گروپوں کی مزاحمت کا تعلق ہے پہلے وہ اپنے اندر اظہار رائے اور میڈیا پرسنز کے حقوق پر اتفاق رائے پیدا کریں کیونکہ صحافی نہ صرف یہ کہ متعدد گروپوں میں تقسیم ہیں بلکہ میڈیا کے اکثر اداروں کو شدید نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے اور جو لوگ صحافیوں کے لیڈر بنے پھرتے ہیں وہ عملاً کنگ میکر بنے ہوئے ہیں۔ اگر اظہار رائے کا مطلب یہ ہے کہ کسی ضابطہ اخلاق یا حدود و قیود کے بغیر ریاست، سیاست اور معاشرت کو تباہ کرکے رکھ دیا جائے تو اس کی اجازت تو نہ کوئی طاقت ور ریاست دے سکتی ہے اور نا ہی کمزور سے کمزور ریاست ایسی “آزادی” پر خاموش رہ سکتی ہے۔ اس بے لگام گھوڑے نے ہماری نئی نسل کو برباد کرنے اور ہونے کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے کو اپنے ملک، معاشرے اور نئی نسل کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ڈیل کرنے کا رویہ اختیار کیا جائے اور اظہار رائے کی آڑ میں معاشرے کو مزید تقسیم اور انتشار گردی سے بچایا جائے۔

(25 جنوری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp