ایڈیٹوریل
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملک خصوصاً خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال اور بیڈ گورننس پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے میں نہ تو کہیں پر امن نظر آتا ہے اور نا ہی ہمیں حکومت نام کی کوئی چیز نظر آتی ہے۔ ان کے بقول ماضی کے مقابلے میں قبائلی علاقوں سمیت خیبرپختونخوا کے سیکورٹی حالات بہت ابتر ہوگئے ہیں اور عوام کو بدترین نوعیت کے عدم تحفظ کا سامنا ہے اسی تناظر میں مجھے خدشہ ہے کہ کہیں خطے میں کوئی بڑی تبدیلی تو رونما نہیں ہورہی اور اگر ایسا کچھ ہوگیا تو ہم کہاں کھڑے نظر آئیں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ طاقت کا استعمال کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور یہ کہ وہ ماضی کی طرح ایک بار پھر قبائلی علاقوں کی صورتحال اور درپیش خطرات کا جائزہ لینے کے لیے ایک نمایندہ جرگہ بلانے کی تیاری کررہے ہیں کیونکہ حکومت اپنے فرائض اور درپیش چیلنجز سے لاتعلق ہے۔جہاں تک خیبرپختونخوا کی حکومت کی کارکردگی کا تعلق ہے ہمیں صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ فاٹا انضمام کو 9 سال مکمل ہوگئے ہیں مگر حالات بہتر ہونے کے برعکس مزید خراب ہوگئے ہیں اور حکومت عوام کے مسائل خصوصاً امن و امان کے مسائل سے لاتعلقی کی پالیسی پر گامزن ہے جس کے بعد ہمارے اس موقف کو تقویت ملی ہے کہ فاٹا انضمام کا فیصلہ غلط تھا۔ آج قبائلی اور جنوبی اضلاع میں بدامنی کا راج ہے اور اہم فیصلوں میں عوام اور مشران کی کوئی مشاورت شامل نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے اور ہم ایک دوسرے کے معاملات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے مگر گزشتہ کافی عرصے سے دونوں ممالک کے تعلقات کشیدگی کی لپیٹ میں ہیں جبکہ خطے میں بہت سے تبدیلیوں کے آثار نظر آرہے ہیں جس کے ادراک کے بغیر ہمارے مسائل اور چیلنجر میں مزید اضافے کا راستہ ہموار ہوگا۔
مولانا نے پی ٹی آئی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو مشورہ دیا کہ وہ محاذ آرائی اور کشیدگی کی بجائے مفاہمت اور مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج پاکستان کی فوج ہے اور ہم اس کے ساتھ کھڑے ہیں تاہم فوج کو سیاسی معاملات سے خود کو دور رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ملک کو مسائل سے نکال دیا جائے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا نے جو کچھ کہا ہے وہ نہ صرف یہ کہ کافی حد تک درست ہیں بلکہ جن خدشات اور متوقع منظر نامے کی انہوں نے نشاندہی کی ہے ان پر سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی اشد ضرورت ہے ۔ معاملات اتنے پیچیدہ اور چیلنجز اتنے زیادہ ہیں کہ ان سے نمٹنے کیلئے تمام سیاسی قوتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ بلیم گیم اور ماضی پر نوحہ خوانی سے مسائل اور معاملات مزید خراب ہوں گے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں نہ صرف یہ کہ مختلف مزاحمتی گروپ ریاست کو چیلنج کرتے ہوئے باقاعدہ جنگ پر اتر آئے ہیں بلکہ عالمی اور علاقائی پراکسیز بھی ان دو حساس صوبوں میں پوری شدت کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ اس کے مقابلے میں دونوں صوبوں کی حکومتوں کی کارکردگی اور ترجیحات کو کسی طور قابل اطمینان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
گورننس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو ہفتے قبل لکی مروت سے جن سرکاری ملازمین کو کالعدم ٹی ٹی پی نے اغواء کیا تھا ان کی بازیابی تاحال ممکن نہ ہوسکی اور اب تمام سیاسی، سماجی تنظیموں نے پیر کے روز سے ایک احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے ہفتے کے روز ایک اور مغوی کو مشران کی درخواست پر “انسانی ہمدردی” کی بنیاد پر رہا کردیا ہے مگر اس ضمن میں صوبائی حکومت نے بالکل خاموشی اختیار کرلی ہے حالانکہ آئینی طور پر ان تمام معاملات کی جواب دہی کے لیے صوبائی حکومت ذمہ دار ہے۔
جہاں تک صوبائی حکومت کی ترجیحات کا تعلق ہے اس کے ذمہ داران کو وفاق کے ساتھ جاری محاذ آرائیوں سے فرصت نہیں ہے ۔ اب تو صوبائی حکومت اور اس کے ذمہ داران کی تمام توجہ پی ٹی آئی کے اندرونی معاملات اور اختلافات پر مرکوز ہے۔ ہفتے کے روز پارٹی کی مرکزی قیادت نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹاتے ہوئے رکن قومی اسمبلی جنید اکبر خان کو صوبائی صدر مقرر کردیا جس کو علی امین گنڈاپور پر عدم اعتماد کا اظہار سمجھا جارہا ہے۔ ایسے میں اس حکومت اور پارٹی سے صوبے کے امن اور تعمیر نو کی توقع ہی عبث ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی حکومت ، عسکری قیادت اور معتدل مزاج سیاسی قوتیں درپیش چیلنجز سے نکلنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
(26 جنوری 2025)