رؤف کلاسرا
پی ٹی آئی کی جانب سے ماضی میں نظر انداز کیے جانے والے جنید اکبر خان کو خلاف توقع نہ صرف یہ کہ علی امین گنڈاپور کی جگہ پارٹی کا صوبائی صدر بنایا گیا بلکہ ان کو عمران خان اور وفاقی حکومت کی بیک وقت چوائس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بھی بنایا گیا جس کو بہت سے حلقے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک ڈیل کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے اور یہ تاثر عام ہے کہ وہ فریقین کے درمیان پل کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ عمران خان اور دیگر نے موقف اختیار کیا ہے کہ چونکہ علی امین گنڈاپور پر وزارت اعلیٰ کی ذمہ داریوں کا بوجھ تھا اس لیے ان کی جگہ دوسرے بندے کو اہم ذمہ داریاں دی گئی ہیں حالانکہ اتنے لمبے عرصے تک جب وزیر اعلیٰ دو تین ذمہ داریاں ادا کرتے آرہے تھے تو ان دلائل یا عوامل پر توجہ نہیں دی گئی۔ جنید اکبر خان نسبتاً معتدل مگر غیر معروف شخص رہے ہیں تاہم اس تبدیلی کو عمران خان کی اس عادت کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ موصوف کو ہر موقع پر ہر جگہ ایسے وفاداروں کی ضرورت ہوتی ہے جن کو ہم حرف عام میں “یس مین” کہہ کر پکارتے ہیں۔ دوسرے لیڈروں کی طرح عمران خان کی نظر میں بھی کسی لیڈر یا کارکن کے لیے کسی قابلیت یا اہلیت سے زیادہ اہمیت اس بات کی رہی ہے کہ بندہ کتنا وفادار ہیں۔
جنید اکبر خان بنیادی طور پر عاطف خان کے گروپ کا نمائندہ قرار دیا جاتا ہے جو کہ پرویز خٹک اور محمود خان دونوں کے ادوار میں وزارت اعلیٰ کے امیدوار رہے ہیں مگر دونوں بار ناکام رہے۔ کچھ عرصہ قبل تک عاطف خان، جنید اکبر اور دیگر کی حالت یہ تھی کہ عمران خان ان سے ملنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے مگر پتہ نہیں اس دوران کیا کچھ ہوا کہ ان لوگوں کو اہم ذمہ داریاں دی گئیں اور اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ بعض حلقے وزارت اعلیٰ کی تبدیلی کا دعویٰ بھی کرنے لگے ہیں جس کا مجھے فی الحال امکان نظر نہیں آتا۔ پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت کو متعدد مشکلات کے علاوہ اندرونی اختلافات کا بھی سامنا ہے ایسے میں کسی کو شاید کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اس پارٹی کے اندر کیا کچھ ہونے جارہا ہے تاہم عمران خان اور پاکستان کے دوسرے روایتی لیڈرز سے کسی بھی بات یا اقدام کی توقع کی جاسکتی ہے کیونکہ پاکستان کی سیاست اور پاور گیم میں اس قسم کی پالیسیوں اور رویوں کو معیوب نہیں سمجھا جاتا اور یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے بلکہ اسے مہارت سمجھا جاتا ہے۔
رہی بات خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی کی تو اس کو مثالی یا اطمینان بخش قرار نہیں جاسکتا ۔ اگر ایک طرف صوبے کو گورننس اور بدامنی کے چیلنجز درپیش ہیں تو دوسری جانب وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو دوسروں کے علاوہ اپنوں کی مخالفت کا بھی سامنا ہے کیونکہ ان کا تعلق خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع سے ہے اور روایتی طور پر مین سٹریم خیبرپختونخوا کے سیاستدان وزارت اعلیٰ اپنا حق سمجھتے ہیں اور اس پس منظر میں علی امین گنڈاپور کو بعض دیگر رکاوٹوں کے علاوہ اس مسئلے سے بھی دوچار ہونا پڑ رہا ہے ۔
(رؤف کلاسرا صاحب پاکستان کے مایہ ناز صحافی، اینکر پرسن اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ غگ نے ان کے ایک حالیہ تبصرے کو یہاں تحریری انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے)
(27جنوری 2025)