GHAG

ملک کو درپیش چیلنجز اور سیاستدانوں کی انا پرستی

بیرسٹر ڈاکٹرعثمان علی

 پاکستان اس وقت سنگین سیاسی اور سماجی بحران کا شکار ہے، جہاں سیاستدان انا اور ضد کے خول میں قید نظر آتے ہیں۔ برداشت کا فقدان معاشرے میں گہرائی تک سرایت کر چکا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے مابین الزامات اور جھگڑوں کا سلسلہ جاری ہے، جس نے سیاسی ماحول کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ترجمان ٹی وی ٹاک شوز میں ایک دوسرے پر الزامات لگاتے اور بدتمیزی کرتے نظر آتے ہیں۔

عدلیہ بھی داخلی تقسیم کا شکار ہے، جہاں ججز کے فیصلوں پر سیاسی دباؤ کے اثرات نمایاں طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور مخصوص حلقوں کی جانب سے شدید مخالفت اور پروپیگنڈے کا سامنا کر رہی ہے۔ میڈیا، جو کہ ایک موثر کردار ادا کر سکتا تھا، بیشتر اوقات سیاسی جماعتوں یا اثر و رسوخ رکھنے والے گروہوں کا آلہ کار بن چکا ہے، جبکہ سوشل میڈیا پر بدتمیزی اور نفرت انگیزی کا طوفان برپا ہے۔ عوام الجھن اور غیر یقینی کا شکار ہیں اور ان میں عمومی مایوسی اور فرسٹریشن پائی جاتی ہے۔

2024 کے انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 47.6  فیصد رہا، جبکہ 2018 میں یہ شرح  52.1 فیصد تھی۔ یہ کمی واضح کرتی ہے کہ عوام کا جمہوری عمل پر اعتماد کم ہو رہا ہے، جس کے پیچھے بداعتمادی اور غیر شفافیت اہم عوامل ہیں۔ اقلیت کی ضد اور انا کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ایسے حالات میں، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی خبریں امن پسند عوام کے لیے امید کی کرن تھیں۔ تاہم، مذاکرات کا جو انجام ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔

گیلپ پاکستان کے حالیہ سروے کے مطابق، 44 فیصد عوام حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ 16 فیصد ان کے خلاف ہیں۔ یہ نتائج واضح کرتے ہیں کہ عوام اپنے مسائل کا پرامن حل چاہتے ہیں، مگر سیاستدان اپنی ذات کی قید سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ سیاسی جماعتیں نجی کارپوریشنز کی طرح ایک فرد کی تابعدار بن چکی ہیں، جو جمہوری اقدار کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

کیا ان سیاستدانوں کو عوام کی مشکلات کا کوئی ادراک ہے؟ کیا انہیں یہ احساس ہے کہ اگر انہوں نے آپس میں بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے اپنے اختلافات دور نہ کیے تو ماضی کی طرح کیا انجام ہو سکتا ہے؟ کیا وہ واقعی چاہتے ہیں کہ یہ جمہوری نظام، چاہے جیسا بھی ہو، ایک بار پھر لپیٹ دیا جائے؟

سیاستدانوں کو احساس کرنا چاہیے کہ پاکستان میں جمہوریت نے ایک پیچیدہ سفر طے کیا ہے، جو مداخلتوں، آمرانہ حکومتوں، اور نظامی چیلنجز سے بھرا ہوا ہے۔ ایسے میں جمہوریت کو مزید کمزور کرنے کے بجائے اسے مضبوط کرنا چاہیے۔ 1947 میں آزادی کے بعد سے، ملک نے مستحکم جمہوری حکمرانی کے قیام کی کوشش کی، جسے فوجی بغاوتوں، سیاسی عدم استحکام، اور کمزور اداروں نے بار بار ناکام بنایا۔ قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان جیسے بانی رہنماؤں کی ابتدائی وفات نے قیادت کا خلا پیدا کیا، جس سے نوزائیدہ سیاسی ڈھانچے بدانتظامی کے لیے کمزور ہو گئے۔

پاکستان میں جمہوریت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج سول اور فوجی اداروں کے درمیان طاقت کا عدم توازن رہا ہے۔ ایک غیر مستحکم خطے میں واقع پاکستان کو داخلی اور خارجی خطرات کا سامنا ہے، جن میں بھارت کے ساتھ سرحدی تناؤ، افغانستان میں علاقائی عدم استحکام، اور دہشت گردی جیسے اندرونی چیلنجز شامل ہیں۔ یہ حالات ملک کی خودمختاری اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے فوج کو ناگزیر بناتے ہیں۔ پاکستان جیسے حساس خطے میں مسلح افواج کی خدمات کو تسلیم کرنا ضروری ہے، تاہم، جمہوری استحکام کے لیے فوج کا سیاسی معاملات سے دور رہنا لازمی ہے۔

عوام کو مسلح افواج کی قربانیوں کا احترام کرنا چاہیے، خاص طور پر اس وقت جب وہ دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ سیاسی اختلافات کے سبب مسلح افواج کو بدنام کرنے یا زہریلے پروپیگنڈے سے گریز کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ان کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے، ہمیں اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے ان کی قربانیوں کی قدر کرنی چاہیے۔

انتخابی شفافیت ہمیشہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ انتخابات کے دوران اور بعد میں دھاندلی کا شور عام ہے، جو اگلے انتخابات تک جاری رہتا ہے۔ انتخابی اصلاحات کے ذریعے دھاندلی اور بدعنوانی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹمز اور بایومیٹرک تصدیق جیسی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے شفافیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

سیاسی جماعتوں میں وفاداریاں بدلنے والے سیاستدان اور نام نہاد “الیکٹیبلز” نہ صرف جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں بلکہ انہی لوگوں کی وجہ سے پاکستان میں نظریاتی سیاست کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ یہ لوگ ذاتی مفادات کو عوامی خدمت پر ترجیح دیتے ہیں، جس کے باعث عوام کا سیاسی عمل پر اعتماد کمزور ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ایسے افراد کی سختی سے حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور میرٹ و جمہوری اقدار کو ترجیح دینی چاہیے، تاکہ نظریاتی کارکنوں کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔

معاشی عدم مساوات اور کم شرح خواندگی جمہوری عمل میں شرکت کو محدود کرتی ہیں۔ پاکستان کی 21.9 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، اور 58 فیصد شرح خواندگی عوامی شعور کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2022 کے مطابق، پاکستان کو 180 ممالک میں سے 140ویں نمبر پر رکھا گیا، جو نظامی بدعنوانی کو ظاہر کرتا ہے۔

ان مسائل کے حل کے لیے فیصلہ کن اقدامات ضروری ہیں۔ انتخابی اصلاحات، عدالتی نظام کی بہتری، اور مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ سول سروس میں میرٹ اور جوابدہی کو فروغ دینا، اور میڈیا میں اخلاقی صحافت کو یقینی بنانا اہم ہے۔

معاشی اصلاحات کے ذریعے غربت کے خاتمے اور شہری تعلیم کو نصاب میں شامل کرنے جیسے اقدامات جمہوری استحکام کو فروغ دے سکتے ہیں۔ شدت پسندی کے خلاف اقدامات، جیسے تعلیمی اصلاحات اور قومی ایکشن پلان کو فعال بنانا، بھی ضروری ہیں۔

پاکستان ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ یہی وقت ہے کہ تمام سیاسی قوتیں ذاتی مفادات کو ترک کر کے ملکی استحکام اور ترقی کے لیے متحد ہو جائیں، تاکہ پاکستان ایک مستحکم جمہوری ملک کے طور پر ابھر سکے۔ مضبوط جمہوریت کی طرف سفر مشکل ضرور ہے، مگر ممکن ہے۔ سیاسی قیادت، عوامی شعور، اور ادارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے پاکستان اپنی بے پناہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتا ہے اور جمہوری خواہشات کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔ یہ سب صرف تب ممکن ہے جب تمام فریقین اپنے اختلافات کو بھلا کر مخلصانہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کریں۔ ویسے پاکستانی عوام ان تمام مہم جوئیوں کے آگے بے بس ہیں۔ وہ صرف اچھے کی امید ہی رکھ سکتے ہیں، کیونکہ امید پر ہی تو دنیا قائم ہے۔

(27 جنوری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts