GHAG

موجودہ سیاست: قیادت کی بدلتی قدریں اور اخلاقی زوال

بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی 

 دنیا بھر پر نظر ڈالیں تو ایک جانب سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز ترقی دیکھنے کو ملتی ہے، جس نے انسانی زندگی کو سہولتوں اور آسانیوں سے بھر دیا ہے۔ تاہم، دوسری طرف معاشرتی سطح پر اخلاقی انحطاط اور انتشار کے گہرے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں۔ وہ اخلاقی قدریں، جو کبھی معاشرتی بنیاد سمجھی جاتی تھیں، آج اپنی اہمیت کھوتی جا رہی ہیں۔ خاص طور پر سیاست میں رہنماؤں کے معیار اور طرزِ عمل میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ماضی میں سیاسی رہنماؤں کو ان کے علم، دانش، شرافت، اور اصولوں کی بنیاد پر پرکھا جاتا تھا۔ ان کی شخصیت میں تحمل، برداشت، اور اخلاقی اصولوں کی جھلک نظر آتی تھی، جو انہیں عوام میں مقبول بناتی تھی۔

موجودہ سیاست میں یہ اقدار پس منظر میں جا چکی ہیں، اور ایسے رہنما نمایاں ہو چکے ہیں جو اخلاقیات کے بجائے عوامی جذبات کو بھڑکانے اور ان سے کھیلنے پر انحصار کر رہے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

ایک اسٹیٹس مین، جو دانش، دیانت داری، اور طویل المدتی وژن کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں اور عوام کی خدمت کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ یہ رہنما اپنے ذاتی مفادات کو بالاتر رکھتے ہوئے ریاست اور قوم کی فلاح کے لیے سوچتے ہیں۔

دوسری جانب شو مین، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ذاتی شہرت، خالی نعروں، جھوٹے وعدوں اور عوامی جذبات کو بھڑکانے کے ذریعے اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف اپنی شخصیت اور ظاہری چمک دمک کے ذریعے عوام کو مرعوب کرنا ہوتا ہے۔

شو مین سیاست کا عروج اخلاقیات کے زوال کو نمایاں کر رہا ہے۔ یہ رہنما عوامی خدمت کے بجائے طاقت، دھوکہ دہی، اور زبانی حملوں پر انحصار کر رہے ہیں۔ ان کا جارحانہ انداز اور کھوکھلے نعرے عوام کو وقتی طور پر متاثر کر رہے ہیں، لیکن طویل المدتی ترقی کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی فراہم نہیں کر رہے۔ یہ نہ صرف معاشرتی تقسیم کو فروغ دے رہے ہیں بلکہ مذہبی اور قومی جذبات کو بھی جان بوجھ کر ہوا دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اس رجحان کو مزید تقویت دے رہا ہے، جہاں جذباتی بیانات اور سنسنی خیز نعروں کے ذریعے عوام کی توجہ حاصل کی جا رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عوام کی ترجیحات میں اصول پسندی اور شفافیت کے بجائے وقتی جذبات اور ظاہری چمک دمک کو اہمیت دی جا رہی ہے۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حقیقی قیادت ہمیشہ اخلاقیات اور اصولوں پر مبنی ہوتی ہے۔ ہمارے سامنے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور بے مثال قیادت کی اعلیٰ ترین مثال موجود ہے۔ آپ نے اپنی فہم و فراست، صبر و تحمل، اور بے لوث قیادت سے دنیا کے لیے انصاف، مساوات، اور دیانت داری کی بنیاد رکھی۔ البتہ، دنیا کے کسی اور شخص کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ موازنہ ممکن نہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قیادت کو انصاف، سادگی، اور عوامی خدمت کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے دور میں غریبوں کے حقوق کی پاسداری اور عدل کی فراہمی مثالی تھی۔ اسی طرح، سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے کردار اور رحم دلی سے تاریخ میں عزت کمائی، جبکہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں علم و حکمت کو فروغ دیا گیا۔

دیگر ثقافتوں میں بھی ایسے رہنما گزرے ہیں، جنہوں نے اصول پسندی اور عوامی خدمت کے ذریعے تاریخ میں نام کمایا۔ سائرس دی گریٹ اور اشوکا اعظم نے مذہبی آزادی، عدل، اور انسانی فلاح و بہبود کے اصولوں کو فروغ دیا۔ یورپ میں چارلیمین اور عثمانی سلطان سلیمان قانونی جیسے حکمرانوں نے انصاف اور تعلیم کے میدان میں انقلابی اقدامات کیے۔ نیلسن منڈیلا اور ابراہیم لنکن جیسے جدید رہنماؤں نے بھی اخلاقیات اور انسانی حقوق کے لیے مثالی جدوجہد کی اور اپنی اقوام کو نفرتوں کے بجائے اتحاد کی راہ پر گامزن کیا۔

اس کے برعکس، تاریخ ہمیں یہ بھی دکھاتی ہے کہ بدعنوان اور عیاش حکمران اپنے ملکوں کے زوال کا باعث بنے۔ رومی شہنشاہ نیرو اور مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا جیسے حکمران اپنی ذاتی خواہشات اور عیاشیوں کے لیے یاد کیے جاتے ہیں۔ ان کی حکمرانی عوامی مسائل کو نظر انداز کرنے اور قومی وسائل کے غلط استعمال پر مبنی تھی، جس نے ان کے معاشروں کو تباہی کی طرف دھکیل دیا۔ ان مثالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اخلاقی قیادت ہی ایک قوم کی ترقی کی ضامن ہو سکتی ہے۔

آج کی دنیا میں سیاست کا رویہ ماضی سے یکسر مختلف ہو چکا ہے۔ آج کے رہنماؤں کی مقبولیت کا معیار دولت، جارحیت، مسخرہ پن، نوسربازی، تشدد و انتشار پسندی، اور کمزور کردار پر مبنی ہے۔ ان کے پاس سوشل میڈیا پر ماہر ٹیمیں موجود ہوتی ہیں، جو ان کی ہر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے اور مخالفین کو گالم گلوچ کا نشانہ بنانے میں مہارت رکھتی ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک، بشمول امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی، وینزویلا، بھارت، اور پاکستان، میں اسی نوعیت کے رہنماؤں کی مقبولیت اس بات کا مظہر ہے کہ عوام قومی مفاد کے نام پر جارحانہ قیادت کو قبول کر رہے ہیں۔ کئی سنگین اخلاقی اور مالی اسکینڈلز کے باوجود، تھیٹریکل انداز اور میڈیا کے استعمال کی مہارت کے باعث یہ رہنما سیاست میں غالب رہے یا اب بھی ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف معاشرتی تقسیم بلکہ سیاسی اخلاقیات کو مزید بگاڑ رہا ہے۔

عوام فوری نتائج اور جذباتی نعروں کی طرف زیادہ مائل ہو چکے ہیں، جس کے نتیجے میں قیادت کے اصول اور اخلاقی اقدار پس پشت جا رہی ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف سیاست بلکہ معاشرتی اقدار پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے اور اخلاقی زوال کے رجحان کو مزید تقویت دے رہا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ خاص طور پر نوجوان نسل اپنے سیاسی شعور کو بیدار کرے اور رہنماؤں کے انتخاب میں جذباتی فیصلوں کے بجائے اصولوں پر مبنی معیار اپنائے۔ نوجوانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شو مین قیادت وقتی دلکشی کے باوجود نہ صرف ان کے بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ انہیں دانشمند قیادت اور شو مین قیادت میں فرق پہچاننا ہوگا۔ حقیقی رہنما وہ ہوتا ہے جو عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو، دیانتداری سے فیصلے کرے اور معاشرتی اتحاد کو فروغ دے۔

اگر نوجوان اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں اور ان رہنماؤں کو مسترد کریں جو صرف نعروں اور جذباتی باتوں کے ذریعے انہیں گمراہ کرتے ہیں، تو وہ نہ صرف اپنے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک بہتر، مضبوط، اور انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

یقیناً، تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اخلاقی اصولوں اور شفاف قیادت کے بغیر ایک کامیاب قوم کا قیام ممکن نہیں۔ نوجوانوں کو اپنی طاقت اور شعور کو استعمال کرتے ہوئے درست قیادت کا انتخاب کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔

(29 جنوری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts