اے وسیم خٹک
کتنی عجیب اور حیرت کی بات ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں گزشتہ ایک سال سے کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ کسی بھی محکمے پر نظر ڈالیں، وہاں کرپشن اور میرٹ کے خلاف ورزیاں عام ہیں۔ مشیروں کی بھرتی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، لیکن عملی اقدامات صفر ہیں۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ صوبے کی یونیورسٹیاں بغیر وائس چانسلرز کے چل رہی ہیں اور تعلیمی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
نگران حکومت نے تعلیمی اور انتظامی بحران کو حل کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کے اقدامات کو مسلسل سبوتاژ کیا گیا۔ تاثر یہ دیا گیا کہ اگر بھرتیاں نگران حکومت کے بجائے دوسری حکومت کرے گی تو مالی فوائد بھی انہی کو ملیں گے۔ تعلیم کے لیے غیر ملکی اداروں کی جانب سے فراہم کردہ فنڈز کا بھی کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا، کیونکہ اساتذہ کو محض لولی پاپ دے کر بہلایا جا رہا ہے۔
صوبے میں سیاسی انتشار اپنے عروج پر ہے۔ نگران حکومت کے فیصلے مسلسل مخالفت کا شکار ہیں، اور عوام کو احتجاجی کالز دے کر سڑکوں پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سلسلہ کبھی 9 مئی کی کال سے شروع ہوتا ہے تو کبھی بشری بی بی کی گرفتاری پر آواز اٹھائی جاتی ہے۔ ہر نئی کال کے ساتھ عوام کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ یہ “آخری کال” ہے، لیکن حقیقت میں یہ محض ایک سیاسی ڈرامہ ہے۔
خان صاحب اور ان کی ٹیم نے خیبرپختونخوا کے عوام کو بار بار احتجاج پر اکسایا، لیکن باقی صوبے خاموش رہے۔ خان صاحب کی اہلیہ بشری بی بی کی گرفتاری کے بعد بھی خیبر پختونخوا کے لوگ سڑکوں پر نہ نکلے، جس پر پارٹی چیئرمین عمران خان نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور پر برہمی کا اظہار کیا۔
صوبے میں تعلیمی شعبے کی حالت بدتر ہو چکی ہے۔ یونیورسٹیوں کے نظام میں وائس چانسلرز کی غیرموجودگی، فنڈز کی ناقص تقسیم، اور میرٹ کے خلاف تقرریاں سب سے بڑے مسائل ہیں۔ اندرونی طور پر پارٹی انتشار کا شکار ہے، لیکن احتجاج کا راگ الاپنے سے کوئی انہیں روک نہیں سکتا۔
یعنی کرپشن، غیر فعال گورننس، اور احتجاجی سیاست نے صوبے کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ مگر کیا کریں، احتجاج ہی وہ واحد کام ہے جو یہاں رہ گیا ہے اور کیا جا رہا ہے۔اور اب ایک دفعہ پھر عوام کو اُن کے خاص کام کے لئے پھر نکالا جائے گا جس کے لئے وہ بنے ہیں اس ایک لطیفے کے ساتھ اجازت دیجیئے کہ
خان صاحب جب وزیراعظم تھے تو ٹی وی دیکھتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ غلط ہو رہا ہے، ہم اس کے خلاف دھرنا دیں گے۔ بشری بی بی نے یاد دلایا کہ خان صاحب، آپ حکومت میں ہیں، اپوزیشن میں نہیں۔
(30 جنوری 2025)