GHAG

افغانستان کی حکومت سے صوبائی حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پھر کوشش؟

خوارج سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے بلکہ یہ افغان قبائلی مشران اور عمائدین سے ہوں گے، بیرسٹر سیف

پاکستانی وفد سیاسی، مذہبی قائدین اور مشران پر مشتمل ہوگا، ٹی او آرز پر کام جاری ہے، مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا

امن، امان کی بحالی خیبرپختونخوا حکومت کی ذمہ داری ہے، مشیر اطلاعات کا بیان

پشاور ( خصوصی رپورٹ ) خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان (مشیراطلاعات) بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ افغانستان کے حالات صوبہ خیبرپختونخوا کے معاملات اور امن و امان کی صورتحال پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ افغانستان کے ساتھ ہمارا تقریباً 2600 طویل سرحد واقع ہے اور دونوں جانب پشتون قبائل آباد ہیں۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک وفد تشکیل دینے کی کوشش پر کام کر رہی ہے تاکہ خیبرپختونخوا کے امن کے لیے مشترکہ طور پر کام کیا جائے اور اس وفد میں سیاسی قائدین ، علماء ، مشران اور قبائلی عمائدین شامل ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ اس سلسلے میں مذاکرات کے لئے ٹی او آرز پر کام جاری ہے جس کے بعد وفاقی حکومت کی مرضی سے وفد کو افغانستان بھیجا جائے گا کیونکہ وہاں کے حالات اور معاملات سے خیبرپختونخوا بری طرح متاثر ہورہا ہے اور امن و امان کی بحالی صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے تاہم خوارج یا دہشت گردوں سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔

ترجمان اے این پی انجنیئر احسان اللہ کا ردعمل

بیرسٹر سیف کے اس بیان یا اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے اے این پی کے مرکزی ترجمان انجینئر احسان اللہ نے رابطے پر بتایا کہ پی ٹی آئی ہی کی گزشتہ حکومت نے اسی طرح کے مذاکرات کرکے ہزاروں دہشت گردوں کی رہائی اور واپسی کا راستہ ہموار کیا تھا اور اگر سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر اس قسم کی ایک اور مہم جوئی کی گئی تو اس کے نتائج پہلے والے ناکام تجربے سے مختلف نہیں ہوں گے۔ ان کے مطابق ہم پی ٹی آئی کو کالعدم ٹی ٹی پی کا سیاسی ونگ سمجھتے ہیں اور فریقین میں مختلف معاملات پر رابطہ کاری اور ہم آہنگی موجود ہیں جس کے نتیجے میں خیبر پختونخوا ایک بار پھر بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے ۔

بریگیڈیئر (ر) محمودشاہ، دفاعی تجزیہ کار

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کے مطابق صوبائی حکومت یا بیرسٹر سیف کا موقف واضح نہیں ہے کہ وہ کس سے مذاکرات چاہتے ہیں کیونکہ اگر وہ پاکستان کی سرحد پر رہائش پذیر افغان عمائدین سے مذاکرات چاہتے ہیں تو وہ تو خود افغان اور پاکستانی طالبان کی رحم و کرم پر ہیں اور اگر یہ افغان حکومت سے مذاکرات چاہتے ہیں تو یہ ان کا ڈومین نہیں ہے دوسرا یہ کہ افغانستان کی عبوری حکومت نہ صرف یہ کہ دہشت گردوں کی کھل کر سرپرستی کررہی ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان شدید کشیدگی موجود ہے جس کو کم یا  دور کرنے میں مرکزی حکومتیں ہی کوئی کردار ادا کرسکتی ہیں۔

(31 جنوری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts