ایڈیٹوریل
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں اسد قیصر ، شیخ وقاص اکرم اور عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی “ہدایات ” کے مطابق 8 فروری کو یوم سیاہ منایا جائے گا جبکہ نئے صوبائی صدر جنید اکبر خان نے کہا ہے کہ اس بار لانگ مارچ پر “کسی” سے بات نہیں ہوگی اور یہ کہ اگر ان کو گرفتار کرلیا گیا تو کارکن فلاں فلاں جگہ سڑکیں بند کریں۔ موصوف نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس ایونٹ اور دیگر پارٹی معاملات کے لیے علی امین گنڈاپور سے وسائل یا مدد نہیں لیں گے ۔ دوسری جانب وزیر داخلہ محسن نقوی نے دوٹوک الفاظ میں ایک بار پھر اس “عزم” کا اظہار کیا ہے کہ اگر اب کے بار بھی یہ لوگ نکلے تو ان کے ساتھ 9 مئی اور 26 نومبر جیسا سلوک کیا جائے گا اور یہ کہ حکومت کو نہ تو کوئی مسئلہ درپیش ہے اور نا ہی کوئی خوف یا تشویش۔
جہاں تک 8 فروری کے مذکورہ ایونٹ کا تعلق ہے ایک تو یہ کہ ابھی تک اس کے روٹ، طریقہ کار اور اہداف کا تعین بھی نہیں کیا گیا ہے۔ اسد قیصر کہتے ہیں کہ صوابی میں اجتماع ہوگا جبکہ باقی اسلام آباد پر چڑھائی کے دعوے کررہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جنید اکبر خان نے اپنے حالیہ بیان میں اس بات کا خود اعتراف کیا ہے کہ ماضی میں ان کے وزیراعلیٰ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کسی “اور” یعنی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات اور ڈیل کی کوششوں کا حصہ بنے رہے ہیں ۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جنید اکبر نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ علی امین گنڈاپور کی شکل میں صوبائی حکومت کے وسائل ماضی کی ایونٹس کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں ۔ اگر اس اعتراف کو “اعتراف جرم” کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پی ٹی آئی ایک تو 8 فروری کو کسی بڑے پاور شو کی پلاننگ اور پوزیشن میں نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ اسے شدید نوعیت کے اندرونی اختلافات بلکہ انتشار کا سامنا ہے۔ تیسرا یہ کہ اب کے بار بھی اس کے احتجاج کا مرکز محض خیبرپختونخوا ہی رہے گا کیونکہ باقی صوبے ایک بار پھر اس “یوم سیاہ” سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ عملاً یہ “مقبول” پارٹی صرف خیبرپختونخوا تک محدود ہو کر رہ گئی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ یہاں بھی اس کی سرگرمیوں کی بڑی وجہ صوبے میں پارٹی کی حکومت کا ہونا ہے ۔ اگر چہ وزیر اعلیٰ کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے فارغ کیا گیا ہے اس کے باوجود صوبائی حکومت کے وسائل اور اثر رسوخ نے ہر ممکن سطح پر استعمال ہونا ہی ہے۔ اس صورتحال نے پارٹی اور صوبائی حکومت دونوں کو ایک بار پھر ایک بڑی آزمائش اور چیلنج سے دوچار کردیا ہے مگر ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ مجوزہ پاور شو 26 نومبر کے شو سے بھی کمزور اور غیر نمایندہ ثابت ہوگا۔
جہاں تک وفاقی حکومت یا ریاست کے طرزِ عمل کا تعلق ہے وہاں عملاً کوئی “ہلچل” نظر نہیں آرہی بلکہ وفاقی حکمران عملی طور پر اس ایونٹ کو “انجوائے” کرنے کے موڈ میں نظر آرہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ایک طرف وزیر داخلہ محسن نقوی نے 26 نومبر سے زیادہ سخت ردعمل کا عندیہ دیا ہے تو رانا ثناء اللہ نے اپنے روایتی انداز میں پی ٹی آئی کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا ہے کہ خوشی خوشی آ جائیں ہمیں نہ تو کوئی اعتراض ہے نا ہی کوئی مسئلہ۔
اس ایونٹ کی آڑ میں نام و نہاد میڈیا نے حسب معمول ویسے ہی چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کرنے کی مہم شروع کررکی ہے کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ گراؤنڈ پر عملاً پہلے کی طرح کچھ بھی نہیں ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ پی ٹی آئی کے پاس موجود کارڈز ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔