بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں مذہبی جماعتوں کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے، جو نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی اور آئینی امور پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا رہا ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل یہ جماعتیں مختلف نظریات اور حکمت عملیوں کے تحت متحرک تھیں۔ کچھ جماعتیں قیامِ پاکستان کی مخالف تھیں کیونکہ ان کا مؤقف تھا کہ مسلم لیگ کے نظریات اسلامی اقدار کے لیے ناکافی ہیں، یا یہ کہ قوم پرستی اسلامی عالمگیریت کے خلاف ہے۔ بعض نے متحدہ ہندوستان کے تصور کو ترجیح دی، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد، ان جماعتوں نے خود کو نئی ریاست کے نظریاتی، سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں ڈھالنا شروع کیا اور ملک کی آئینی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
قراردادِ مقاصد کے نفاذ میں مذہبی جماعتوں نے کلیدی کردار ادا کیا، جس نے پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی بنیاد رکھی۔ 1956 کے آئین میں ان کے دباؤ پر کئی اسلامی دفعات شامل کی گئیں، جن میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دینا اور صدر کے لیے مسلمان ہونے کی شرط نمایاں تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ان جماعتوں کا اثر مزید بڑھا، جب شراب پر پابندی، جمعہ کی تعطیل، اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اقدامات کیے گئے۔ 1974 میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ بھی مذہبی جماعتوں کے دباؤ کا نتیجہ تھا، جس پر انہیں زبردست عوامی حمایت حاصل ہوئی۔
ضیاء الحق کے دور میں مذہبی جماعتوں کا اثر اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ اسلامائزیشن کی پالیسیوں کے تحت حدود آرڈیننس، زکوٰۃ و عشر کا نظام، اور توہینِ رسالت کے قوانین نافذ کیے گئے۔ ان اقدامات نے نہ صرف ملک کے آئینی اور قانونی ڈھانچے کو متاثر کیا بلکہ سماجی سطح پر بھی تبدیلیاں متعارف کروائیں۔ اس دوران متعدد مذہبی جماعتیں افغان جنگ میں امریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایک اہم فریق کے طور پر ابھریں، جس سے ان کے سیاسی اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہوا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں مذہبی جماعتوں کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ متحدہ مجلس عمل نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکومت بنائی، لیکن مشرف کی “روشن خیالی کی اعتدال” کی پالیسی نے ان کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ اس دور میں سیکولر اور مذہبی جماعتوں کے درمیان کشمکش نمایاں رہی، لیکن مذہبی جماعتیں اپنی عوامی طاقت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں۔
مذہبی جماعتوں کی سماجی خدمات ان کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں اور عوام میں ان کے اثر و رسوخ کو بڑھانے میں مدد دیتی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) نے پارلیمانی سیاست میں ایک متوازن اور لچک دار رویہ اپنایا اور یتیم بچوں کی کفالت، مدارس کی تنظیم نو، اور دیہی علاقوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی جیسے فلاحی منصوبے شروع کیے۔ جماعتِ اسلامی نے بھی اپنی سیاسی اور سماجی خدمات کے ذریعے اپنی الگ پہچان بنائی، جبکہ اس کی ذیلی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن قدرتی آفات کے دوران امدادی سرگرمیوں، صحت کے منصوبوں، اور صاف پانی کی فراہمی میں نمایاں رہی۔ ان جماعتوں کی سماجی خدمات نے ان کے عوامی تاثر کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
حالیہ برسوں میں تحریک لبیک پاکستان جیسی جماعتیں سیاسی منظرنامے پر ابھریں۔ ان کا نعرہ توہینِ رسالت کے قوانین کے تحفظ کا ہے، جسے عوامی پزیرائی بھی حاصل ہوئی، لیکن ان کی جارحانہ اور انتہا پسندانہ پالیسیوں، احتجاجوں اور دھرنوں نے کوئی مثبت تاثر قائم نہیں کیا۔ اس کے علاوہ، ان کی سرگرمیوں نے مذہبی ووٹ کو بھی تقسیم کر دیا۔ دوسری جانب، جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق) اور مجلس وحدت المسلمین اور اس جیسی دوسری چھوٹی مذہبی جماعتیں بھی مذہبی خدمات کے ساتھ ساتھ اپنی سطح پر کچھ نہ کچھ سیاسی کردار ادا کرتی رہتی ہیں۔
تاہم، مذہبی جماعتوں پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔ فرقہ واریت کو ہوا دینا، انتہا پسندی اور شدت پسندی کو فروغ دینا، اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک جیسے مسائل ان کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ بعض مذہبی جماعتوں کا عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ تعلق اور ان کی نظریاتی حمایت ملک میں دہشت گردی اور عدم استحکام کو تقویت دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، قبائلی علاقوں میں شدت پسند گروہوں کو سیاسی حمایت حاصل ہونے کے الزامات بارہا منظرعام پر آئے ہیں۔ اس کے علاوہ، مذہبی جماعتوں کو بارہا عوامی مسائل کے بجائے محض نظریاتی بحثوں میں الجھنے پر بھی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
موجودہ حالات، جیسے معاشی بدحالی، سیاسی عدم استحکام، اور سلامتی کے خطرات کے پیش نظر، مذہبی اور سیکولر جماعتوں کو جمہوری تنوع، آئینی بالادستی، اور سماجی ہم آہنگی کے اصولوں کے تحت اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مذہبی جماعتوں کو شدت پسندی سے گریز کرتے ہوئے مختلف مسالک اور برادریوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیے، جبکہ سیکولر جماعتوں کو عوامی مسائل، جیسے غربت، بے روزگاری، اور تعلیم، پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ دونوں جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سماجی انصاف، معاشی اصلاحات، اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔
اگر مذہبی جماعتیں اپنی سیاسی حیثیت مستحکم کرنا چاہتی ہیں تو انہیں اپنی حکمت عملی میں چند بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ انہیں صرف مذہبی اور نظریاتی معاملات تک محدود رہنے کے بجائے عوامی مسائل جیسے مہنگائی، صحت، تعلیم، اور روزگار پر زیادہ توجہ دینی ہوگی۔ فرقہ واریت اور شدت پسندی سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرنا، خواتین اور نوجوانوں کو سیاست میں شامل کرنا، اور جدید طرزِ سیاست اپنانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ انہیں اپنی فلاحی خدمات میں مزید وسعت دینی ہوگی اور سیاسی احتجاج کے بجائے پارلیمانی سیاست کے ذریعے اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانا ہوگا۔ ڈیجیٹل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے بیانیے کو زیادہ وسیع عوامی حلقوں تک پہنچانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
بین الاقوامی سطح پر ترکی کی اسلام پسند جماعتوں کی حکمت عملی ایک ماڈل فراہم کرتی ہے، جہاں روایتی مذہبی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے جدید اصلاحات کو شامل کیا گیا۔ اگر مذہبی جماعتیں واقعی سیاست میں ایک مؤثر کردار ادا کرنا چاہتی ہیں تو انہیں اپنی روایتی حکمتِ عملی کو ترک کرکے جدید تقاضوں کے مطابق عملی سیاست کرنی ہوگی۔ مذہبی شناخت اور روحانی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے، انہیں جدید دنیا کے مسائل کو بھی اپنے ایجنڈے کا حصہ بنانا ہوگا۔ اگر یہ جماعتیں اپنی پالیسیوں کو عوامی ضروریات سے ہم آہنگ کر لیں تو وہ نہ صرف زیادہ ووٹ حاصل کر سکتی ہیں بلکہ قومی سیاست میں ایک مضبوط مقام بھی بنا سکتی ہیں۔
(5 فروری 2025)