اے وسیم خٹک
ہم جنگ سے کب نکلیں؟ پختون سکون کی نیند کب سوئیں گے؟ افغانستان، پختون بیلٹ میں کب امن آئے گا؟ پشاور کب پرامن ہوگا؟ بلوچستان کے پختون کب آرام سے بیٹھیں گے؟ افغانستان کب لڑائی سے مبرا ہوگا؟ یہ سوالات اکثر وبیشتر میرے ذہن میں گردش کرتے ہیں، مگر کوئی جواب نظر نہیں آتا۔ سوچ مقفل ہو جاتی ہے، کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔ تحریک طالبان کی ایک سالہ رپورٹ جاری ہوئی جس میں پختونخوا کے علاقے تباہی سے دوچار نظر آئے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں پنجاب اور سندھ میں زیادہ تر لوگ ڈکیتیوں اور حادثات میں مرے، جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں نوجوان دھماکوں کی نذر ہوئے۔ دہشت گردی میں جان کی بازی ہارگئے ۔پنجاب اور سندھ میں کاروبار ہے، زندگی کی رونق ہے، چاشنی ہے، مگر یہاں خوف ہے، اندھیرا ہے، دھماکے ہیں، اور پختون مر رہے ہیں۔
یہ تضاد کیوں ہے؟ کیا پختون اس سرزمین کے جائز باسی نہیں؟ کیا ان کی زندگیاں کسی حساب میں نہیں آتیں؟ یا پھر یہ سب کسی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے؟ پاکستان کے مختلف حصوں میں اگر امن قائم ہوسکتا ہے تو پھر یہی امن خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کیوں ممکن نہیں؟ یہ سوالات دہائیوں سے موجود ہیں، مگر ان کے جوابات کبھی سامنے نہیں آتے، یا شاید جوابات ہمارے سامنے ہوتے ہیں، مگر ہم انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔
پختونخوا اور بلوچستان کے حالات دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ کسی اور کی نہیں، بلکہ انہی لوگوں کی سرزمین پر لڑی جا رہی ہے، جنہیں اس سے سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ عالمی سیاست، ریاستی کمزوریاں، اور اندرونی خلفشار، سب مل کر اس خطے کو ایک نہ ختم ہونے والے المیے میں جھونک رہے ہیں۔ وہ قوتیں جو طاقت اور اختیار رکھتی ہیں، وہ ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے، ان سے فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک اور دھماکہ ہوتا ہے، ایک اور لاش اٹھائی جاتی ہے، ایک اور خاندان ماتم کرتا ہے، مگر سب معمول کے مطابق چلتا رہتا ہے۔
یہ کھیل کب ختم ہوگا؟ شاید جب ہم خود اسے ختم کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ جب ہم ان عناصر کو پہچانیں گے جو ہمارے نام پر جنگ لڑ رہے ہیں، مگر درحقیقت ہمیں ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جب ہم سمجھیں گے کہ بندوق کبھی امن نہیں لا سکتی، اور جنگ کبھی خوشحالی کا راستہ نہیں بن سکتی۔ جب ہم اپنے نوجوانوں کو اس آگ سے بچانے کے لیے آگے بڑھیں گے، اور اپنی سرزمین پر ہونے والی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
تب شاید ہم بھی چین کی نیند سو سکیں۔ تب شاید ہم بھی دھماکوں کی گونج کے بجائے، زندگی کی سرگوشیاں سن سکیں۔ تب شاید پختون بیلٹ بھی پرامن ہو سکے، اور ہم سب اس سوال کا جواب حاصل کر سکیں جو نسلوں سے ہمارا پیچھا کر رہا ہے۔
(5 فروری 2025)