اے وسیم خٹک
کرک، جو ماضی میں ایک پرامن ضلع کے طور پر جانا جاتا تھا، اب عسکریت پسندی کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب یہاں دہشت گردی کے واقعات نہ ہونے کے برابر تھے۔ یہاں تک کہ جب ‘وار آن ٹیرر’ اپنے عروج پر تھی، کرک میں صرف ایک خودکش حملہ پولیس اسٹیشن پر ہوا تھا، اور اس کے بعد کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا۔ تاہم، 2010 کے بعد، جب بانڈہ داؤدشاہ کالج کے قریب ایک سرچ آپریشن کے دوران غیر ملکی عسکریت پسندوں کی ہلاکت ہوئی، تو عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات آنے لگیں، اور وقتاً فوقتاً بہادر خیل جیسے وزیرستان سے متصل علاقوں میں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت دیکھنے کو ملی۔
اس علاقے میں عسکریت پسندی کی مکمل سرکوبی کے باوجود حالات مکمل طور پر بہتر نہیں ہوئے۔ گرگری گاؤں، جو افغانستان میں طالبان کی تحریک کے دوران مقامی طور پر اُبھرا، اب تک عسکریت پسندوں کی حمایت کا مرکز ہے۔ گرگری کی سرحد ہنگو دوآبہ اور کرم ایجنسی سے ملتی ہے، اور یہ روڈ کی بندش کے بعد دوسرا اہم تجارتی راستہ بن چکا ہے۔
2022ء کے بعد، کرک میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ لاچی ٹول پلازہ پر ہونے والے حملے کے بعد خرم، دریش خیل اور بہادر خیل میں متعدد سرچ آپریشن کیے گئے۔ ان آپریشنز کے باوجود دہشت گردانہ حملے مسلسل جاری ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ علاقے میں مکمل سیکیورٹی کی صورتحال ابھی بھی قائم نہیں ہو سکی ہے۔
کرک میں حالیہ واقعات میں، عیسک خماری کے علاقے میں ایک بینک سے سینتالیس لاکھ روپے کی لوٹ مار کی گئی۔ ذرائع کے مطابق یہ حملے عسکریت پسندوں کی جانب سے کیے گئے تھے، جو پہاڑوں میں چھپ کر رہتے ہیں۔ اس سے پہلے نشپہ کے علاقے سے سرکاری ملازمین کو اغوا کیا گیا، جن کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں چل سکا۔
گزشتہ رات بہادر خیل پولیس چوکی پر ہونے والے حملے نے سیکیورٹی خدشات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، جس کے بعد علاقے کی حساس تنصیبات جیسے مول کمپنی اور نشپہ آئل ریفائنری کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
کرک قدرتی وسائل سے مالامال ہے اور یہاں سوئی کے بعد ملک کا دوسرا بڑا گیس اور تیل کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہاں سے روزانہ ہزاروں مکعب فٹ گیس نکالی جاتی ہے جو ملک کے مختلف حصوں تک پہنچائی جاتی ہے۔ نیشپا آئل فیلڈ سے یومیہ 830 بیرل خام تیل اور 1.0 ملین مکعب فٹ گیس کی پیداوار شروع ہو چکی ہے، جو توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دے رہا ہے۔
اگر سیکیورٹی کی صورتحال میں فوری بہتری نہ لائی گئی تو نہ صرف مقامی معیشت بلکہ قومی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ توانائی اور معدنیات کے منصوبے خطرے میں پڑ سکتے ہیں، اور حکومت کو مالی نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے۔
(7 فروری 2025)