ایڈیٹوریل
پاکستان تحریک انصاف 8 فروری کو اپنے بانی چیئرمین عمران خان کی ہدایت کے مطابق “یوم سیاہ” کے نام پر ایک ایونٹ کرنے جارہی ہے تاہم ماضی کے برعکس اب کے بار کوئی خاص گرمجوشی نظر نہیں آرہی اور اس کے متعدد اسباب ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کارکنوں کے علاوہ پارٹی عہدیدار بھی بار بار کے لاحاصل احتجاج اور مزاحمت پر مشتمل طرزِ سیاست سے تنگ آگئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ پارٹی کی ہر پاور شو کا انحصار خیبرپختونخوا پر ہوتا ہے اور دوسرے صوبے خصوصاً پنجاب ان احتجاجی سرگرمیوں سے ہر بار لاتعلق دکھائی دیتے ہیں ، تیسرا یہ کہ پی ٹی آئی کو اب کے بار خیبرپختونخوا میں بھی شدید اختلافات اور کرپشن کے بدترین الزامات کا سامنا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ اب کے بار اس ایونٹ کے لیے اسلام آباد یا پنجاب کی بجائے اپنے ہی صوبے کے علاقے صوابی کا انتخاب کیا گیا ہے جس پر کارکن سوالات کھڑے کررہے ہیں کہ جس صوبے میں ہم برسر اقتدار ہیں تو یہاں ایسے احتجاج سے پارٹی کو کیا حاصل ہوگا۔
دوسری جانب اس قسم کی اطلاعات بھی زیر گردش رہیں کہ نئے صوبائی صدر جنید اکبر خان نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سے اس ایونٹ کے لیے 6 سے 8 کروڑ روپے مانگے جس پر وزیر اعلیٰ نے یہ کہہ کر معذرت کی کہ وہ اس کا انتظام نہیں کرسکتے کیونکہ اس سے قبل کی ایونٹس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ صوبائی حکومت نے تقریباً 40 کروڑ خرچ کیے یا کارکنوں، لیڈروں میں بانٹے اور صوبائی حکومت کے وسائل کا کھلے عام استعمال بھی کیا گیا اس کے باوجود علی امین گنڈاپور کو صوبائی صدارت سے بیک جنبشِ قلم بے دخل کردیا گیا اور اب ان سے وزارت اعلیٰ کی کرسی چھیننے کی افواہیں بھی گردش میں ہیں اس لیے وہ نہ تو پہلے کی طرح مدعی بنتے دکھائی دیتے ہیں اور نا ہی اب کے بار ان پر اس ضمن میں کوئی سیاسی یا تنظیمی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
علی امین گنڈاپور اور ان کے بھائی فیصل امین گنڈاپور کے بارے میں یہ اطلاعات بھی پھر سے زیر گردش ہیں کہ پشاور میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے قیام کے دوران بعض ٹھیکے داروں سے کروڑوں روپے لینے کے معاملے دونوں بھائیوں کی ان کے ساتھ تلخی ہوئی جس کے ردعمل میں بشریٰ بی بی کے لیے وزیر اعلیٰ “ناپسندیدہ” قرار پائے اور اسی کی پاداش میں ان کو صوبائی صدارت سے فارغ کیا گیا حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہوچکی ہے کہ تلخی کے باوجود بشریٰ بی بی صوبے کے ٹھیکیداروں اور بعض بیوروکریٹس سے 11 سے 13 کروڑ روپے”ہتھیانے” میں کامیاب رہی۔
اس صورتحال کے تناظر میں اپنے تبصرے میں سینئر صحافی حسن خان نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے نہ صرف یہ کہ سرکاری وسائل اس قسم کی سرگرمیوں کے لئے بری طرح استعمال ہورہے ہیں بلکہ ایک پسماندہ اور جنگ زدہ صوبے کے عوام اور سرکاری ملازمین کو بھی اسلام آباد اور پنجاب پر چڑھائی کے لیے دھکیلا جارہا ہے حالانکہ صوبے کو دہشت گرد حملوں کے علاوہ بیڈ گورننس اور کرپشن کے بدترین حالات کا بھی سامنا ہے ۔ ان کے بقول پنجاب اور سندھ کی حکومتوں میں ترقیاتی منصوبوں کا مقابلہ جاری ہے جبکہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو محاذ آرائیوں اور کشیدگی کے اقدامات سے فرصت نہیں ہے ۔ حسن خان کے بقول اب کے بار پی ٹی آئی بوجوہ زیادہ فعال یا پُرجوش نظر نہیں آتی اور یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ صوابی میں ایونٹ رکھنے کا جواز اور فایدہ کیا ہے؟
تجزیہ کار آصف نثار غیاثی نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ صوبے کے عوام نے 3 بار پی ٹی آئی پر اعتماد کیا مگر پارٹی کی تینوں صوبائی حکومتوں نے صوبے کے امن، ترقی اور مسائل کے حل پر کوئی درکار توجہ نہیں دی جس کے باعث نہ صرف عوام بلکہ پارٹی کے کارکنوں میں بھی مایوسی پھیل گئی ہے اور وہ مزاحمتی سیاست سے بے زار دکھائی دینے لگے ہیں ۔ ان کے بقول پنجاب اور سندھ نہ صرف یہ کہ ترقی کی دوڑ میں کافی آگے نکل گئے ہیں بلکہ پنجاب کے پی ٹی آئی کارکنان اور لیڈروں نے بھی تمام احتجاجی سرگرمیوں سے خود کو الگ رکھا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ اب کے بار بھی یہ “لڑائی” ہمیں بدامنی اور مسائل سے دوچار خیبرپختونخوا سے لڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
دوسری جانب گزشتہ روز جیل سے رہائی پانے والے پی ٹی آئی کے اہم رہنما اعظم سواتی نے اپنی ہی صوبائی حکومت پر بدانتظامی اور کرپشن کے سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی کے وزیر اور ارکان اسمبلی کرپشن میں ہر حد پار کرچکے ہیں اور یہ وہ اس صورتحال کو نہ صرف یہ کہ بانی پی ٹی آئی کے نوٹس میں لائیں گے بلکہ وہ ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اپنے بانی کے درمیان ملاقات اور مذاکرات بھی کرائیں گے تاہم دوسرے والے دعوے کو نہ نامور تجزیہ کار نجم سیٹھی نے “مذاق” قرار دیتے ہوئے اپنے تبصرے میں کہا کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کا اس معاملے پر موقف بلکل واضح اور دوٹوک ہے اور وہ یہ کہ پی ٹی آئی نے اگر مذاکرات یا رابطے کرنے ہیں تو وہ حکومت یا سیاستدانوں سے کیے جائیں۔ ان کے بقول پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت نے ایک بار پھر اس ایونٹ سے خود کو باہر رکھا ہوا ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ صوابی میں پارٹی خیبرپختونخوا کے بیس تیس ہزار کارکن اور عوام اکٹھے کرنے میں کامیاب ہوجائے گی کیونکہ اس صوبے میں یہ پارٹی برسرِ اقتدار ہے مگر اس سے عمران خان کی رہائی سمیت دیگر مطالبات کے سلسلے میں ریاست پر کوئی دباؤ پڑنے والا دکھائی نہیں دیتا۔
(8 فروری 2025)