GHAG

آرمی چیف کا طنزیہ تبصرہ اور ماہرین کی آراء

ایڈیٹوریل

موجودہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ سابق سپہ سالاروں کے برعکس خود کو میڈیا سے دور یا فاصلے پر رکھتے ہیں اور ان کی سرگرمیوں ، بیانات اور دوروں سے متعلق تفصیلات پراپر طریقے سے متعلقہ ونگ یا فورم یعنی آئی ایس پی آر ہی سے جاری ہوتی ہیں۔ میڈیا کے اکثر لوگ اور ادارے ماضی میں براہ راست ملاقاتوں کا جو ناجائز فائدہ اٹھاتے غلط فہمیوں کا راستہ ہموار کرتے آرہے تھے جاری پالیسی کے باعث موجودہ اعلیٰ عسکری قیادت اس سے بچی رہی ہے جو کہ بہترین لائحہ عمل ہے۔

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے گزشتہ روز اسلام آباد میں اتفاقاً بعض صحافیوں کے ساتھ خوشگوار موڈ میں پاکستان کے حالات اور ایک لیڈر کے “خطوط گردی” پر جس طنزیہ انداز میں تبصرہ کیا ہے میڈیا کل سے اس میں سے اپنے اپنے انداز میں نتائج ” اخذ ” کرنے کی کھوج اور کوشش میں لگا ہوا ہے۔

آرمی چیف کا موقف اور پیغام کسی ابہام کی بجائے بلکل دوٹوک اور واضح ہے اور وہ یہ کہ وہ یا عسکری قیادت اس قسم کی سرگرمیوں ، ٹیکٹکس اور ” خطوط ” وغیرہ کو نہ تو کوئی اہمیت دیتے ہیں نا ہی کوئی نوٹس لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کو کوئی خط نہیں ملا اور اگر ملا تو پڑھنے کی بجائے وزیر اعظم کو بھیج دوں گا۔ اب اس میں سے یہ تاثر کس بنیاد پر لیا جاسکتا ہے کہ گویا انہوں نے خط کا جواب دیا ہے یا رسپانس دیا ہے؟

“اگر مگر اور چونکہ چنانچہ” کی بجائے انہوں نے طنزیہ مگر خوشگوار موڈ میں یہ جواب دیا ہے کہ ان کو ایسی حرکتوں میں نہ کوئی دلچسپی ہے اور نا ہی وہ اس کا کوئی نوٹس لیتے ہیں۔ دوسرا پیغام انہوں نے یہ دیا ہے کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ موجودہ حکومت کی پشت پر کھڑی ہے۔

آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ ملک بہت اچھے انداز میں آگے بڑھ رہا ہے ، ترقی ہورہی ہے اور مزید آگے بڑھیں گے ۔

سنجیدہ سیاسی تجزیہ کار ان چند باتوں سے جو نتائج اخذ کررہے ہیں وہ یہ ہیں ۔

1 : پاکستان کی طاقتور ملٹری اسٹبلشمنٹ کو کسی مزاحمتی لیڈر یا اس کی پارٹی کی ایسی ” ٹیکٹکس ” کی سرے سے کوئی پرواہ ہی نہیں ہے اور یہ تاثر محض ایک غلط فہمی ہے کہ کسی لیڈر یا پارٹی سے ریاست خوفزدہ ہے ۔

2 : یہ کہ پی ٹی آئی نے مذاکراتی عمل سے فرار اختیار کرکے مفاہمت کی آخری چانس کو بھی گنوادیا ہے اور ملٹری اسٹبلشمنٹ سے مذاکرات کی باتیں محض ڈس انفارمیشن ہیں جو بھی ہوگا فیڈرل گورنمنٹ کی خواہش کے مطابق ہوگا ۔

3 : یہ کہ عسکری قیادت موجودہ اتحادی حکومت کی نہ صرف پشت پر کھڑی ہے بلکہ ملک کو مزید مسائل سے نکالنے کی کوششوں میں لینڈنگ رول بھی ادا کررہی ہے۔

4 : پاکستان تیزی کے ساتھ سیاسی انتشار ، پروپیگنڈا کے اثرات اور نام و نہاد عالمی تنہائی سے نکل رہا ہے اور معاشی حالات اور فارن پالیسی کے معاملات بھی تیزی سے درست ہورہے ہیں ۔

5 : یہ کہ دہشتگردی اور بدامنی کے علاوہ پاکستان مخالف پروپیگنڈا ہر بھی قابو پایا جارہا ہے اور چیلنجز کم ہوتے جارہے ہیں۔

ان تمام عوامل کے ہوتے ہوئے میڈیا اور مخالفین کی جانب سے حسب معمول چائے کی پیالی میں طوفان “برپا کرنے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا تاہم اس اس ضمن میں وفاقی حکومت اور اس کے ذمہ داران کے لیے لازمی ہے کہ وہ مزاحمتی سیاست کے “عادی کھلاڑیوں” اور ان کے رہے سہے “سہولت کاروں” کو غیر ضروری اہمیت دینے کا سلسلہ ترک کرکے ان کی “مفت پبلسٹی” کی اپنی پالیسی سے گریز کا راستہ اختیار کریں۔

(15 فروری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts