اقوام متحدہ کی35 ویں تجزیاتی رپورٹ میں پاکستانی موقف کی تائید
افغان حکمران اور طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں مدد دے رہے ہیں، رپورٹ
افغان سرزمین سے پاکستان پر 600 سے زائد حملے کئے گئے ہیں، وہاں 24 گروپ سرگرم عمل ہیں، رپورٹ
نورولی محسود کی فیملی کو افغان حکومت ماہانہ 43 ہزار ڈالرز دے رہی ہے، رپورٹ میں انکشاف
ٹی ٹی پی نے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں نئے کیمپ قائم کئے ہیں، رپورٹ میں انکشافات
پشاور (غگ رپورٹ) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دہشت گردی اور دہشت گرد گروپوں کی مانیٹرنگ کرنے والی اپنی 35 ویں “تجزیاتی رپورٹ” میں پاکستان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت اور افغان طالبان کی قیادت ایک پالیسی کے تحت کالعدم ٹی ٹی پی، بی ایل اے ، القاعدہ اور متعدد دیگر دہشت گرد گروپوں کو پاکستان کے خلاف نہ صرف سپورٹ کرتی آرہی ہیں بلکہ ان کو افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ بھی دی گئی ہے جس کے باعث گزشتہ سال افغان سرزمین پر پاکستان کے خلاف 600 سے زائد حملے کئے گئے اور اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو “آپریشن عزم استحکام” کا آغاز کرنا پڑا جس کے نتیجے میں سینکڑوں کارروائیاں کی گئیں۔
گزشتہ روز جاری کرنے والی رپورٹ میں سلامتی کونسل نے کہا ہے کہ افغانستان کے اندر کالعدم تحریک طالبان پاکستان، بلوچ لبریشن آرمی، القاعدہ اور داعش برصغیر سمیت تقریباً 24 دہشت گرد گروپ کام کررہے ہیں اور اول الذکر دہشت گرد گروپوں کو افغانستان کی طالبان قیادت اور ان کی حکومت پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے مسلسل “لاجسٹک اینڈ آپریشنل سپورٹ” فراہم کرتی آرہی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سپورٹ کے باعث کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دیگر پاکستان مخالف گروپوں کی طاقت، صلاحیت اور کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف 600 سے زائد حملے کئے گئے۔
سلامتی کونسل کی جانب سے سال 2024 کے یکم جولائی سے 13 دسمبر کے درمیان ہونے والے واقعات کا احاطہ کرنے والی 35 ویں تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کالعدم ٹی ٹی پی نے انہی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس برس افغانستان کے 4 سرحدی صوبوں ننگرہار ، پکتیکا ، خوست اور کنڑ میں متعدد دیگر ٹریننگ سنٹرز یا کیمپ قائم کیے جن میں سے بعض کو پاکستان نے نشانہ بنانے کی متعدد کوششیں بھی کیں جبکہ پاکستان نے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے آپریشن عزم استحکام کے تحت سینکڑوں کارروائیاں کرتے ہوئے بے شمار دہشت گردوں کو نشانہ بنایا ۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے امیر نورولی محسود کی فیملی کی اخراجات کے لیے افغان عبوری حکومت ماہانہ 43 ہزار ڈالرز دے رہی ہے جبکہ متعدد دیگر شعبوں میں بھی نہ صرف کالعدم ٹی ٹی پی بلکہ مجید بریگیڈ، القاعدہ اور بعض دیگر دہشت گرد گروپوں کی بھی مالی اور تکنیکی سرپرستی کی جارہی ہے جس کے باعث پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔
رپورٹ میں افغانستان کے اندر موجود ٹی ٹی پی کے جنگجووں کی تعداد 6500 بتائی گئی ہے اور نشاندھی کی گئی ہے کہ افغانستان کی سرپرستی کے نتیجے میں کالعدم ٹی ٹی پی مزید مضبوط اور فعال ہوسکتی ہے اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کا رویہ افغانستان کی عبوری حکومت اور طالبان کے بارے میں سخت ہوتا جارہا ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات بھی انتہائی کشیدہ ہوگئے ہیں۔
(16 فروری 2025)