ضیاء الحق سرحدی
چھبیس (26) جون کا دن منشیات کے استعمال اور غیر قانونی کاروبار کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایاجاتا ہے۔منشیات کے استعمال کی تاریخ بھی انسانی تاریخ کی طرح قدیم ہے۔ انسان اس کا استعمال شاید ازل سے ہی کرتاآرہا ہے۔ دنیا کے تمام خطوں میں ایسی قدرتی اور خودرو جڑی بوٹیاں موجود ہیں کہ جن کے استعمال سے نشہ ہوتا ہے۔منشیات کا استعمال صدیوں سے جاری ہے قدیم مذاہب اور تہذیبوں میں اس کی کوئی ممانعت نہیں تھی البتہ اسلام نے ہر نشہ آور چیز کو حرام قرار دیکر مسلمانوںکو اس سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے لیکن آج دنیا کے دیگر ممالک کی مانند اسلامی ممالک میں بھی اس کا استعمال عام ہے۔جبکہ افغانستان کا شمار ان ممالک میں کیاجاتا ہے جہاں دنیا کی سب سے زیادہ مقدارمیں منشیات کی پیدوار ہوتی ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقے منشیات کی سمگلنگ کیلئے مشہور ہیں۔ اس کا استعمال بھی خیبر سے کراچی تک ہے اس لئے اس کے بارے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ نشے کے عادی افراد کے بوجھ نے پاکستان میں صحت عامہ کے نظام کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ چھ لاکھ سے زائد پاکستانی نشہ کرنے والوں کو منشیات نہ ملے تواس وجہ سے ان کی موت بھی ہوسکتی ہے۔اے این ایف نے صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو منشیات کی لعنت سے پاک کرنے کا عزم مصمم کر رکھا ہے۔ جس میں اب تک اینٹی نارکوٹکس فورس نے حوصلہ افزاء کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
جس کا ثبوت یہ ہے کہ اے این ایف نے ریکارڈز کا میابیاں حاصل کی ہیں اور اس دوران لاکھوں کلو گرام منشیات پکڑی گئی ہیں جو کہ اے این ایف کی بہترین کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جس کا کریڈٹ اے این ایف میجر جنرل عبدالمعید اور کمانڈنٹ پشاور اے این ایف بریگیڈیئر مظہر حسین کو جاتا ہے۔دیگر سرکاری ایجنسیوں کے علاوہ ایف بی آر کے محکمے اور ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ پشاور آپریزمنٹ اور کسٹم انفورسمنٹ کا ذکر نہ کروں تو زیادتی ہوگی ان دونوں محکموں نے بھی منشیات پکڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔جس کا سہرا چیئرمین ایف بی آرراشد محمود لنگڑیال، ممبر کسٹم آپریشن محمد جنید جلیل خان،چیف کلکٹر کسٹم آپریزمنٹ نارتھ پشاورخواجہ خرم نعیم ، کلکٹر کسٹم آپریزمنٹ پشاوراظور المہدی ، چیف کلکٹر کسٹم انفورسمنٹ باسط عباس اور کلکٹر کسٹم انفورسمنٹ ضیاء اللہ شمس کوجاتا ہے ۔ محکمہ کسٹمز پشاور نے بڑی تعداد میں منشیات، شراب، جعلی سگریٹ، زائدالمیعاد ادویات ہیں جوکہ استعمال کیلئے نہایت ہی مضر صحت ہیںپکڑی ہیں جس میں ہیروئن پاڈر،چرس، افیون،میتھیمفیٹامین (آئس ڈرگ)،کوکین وغیرہ شامل ہیںجن کی مالیت30ملین روپے بنتی ہے ۔ کسٹم جنرل آرڈرز کے تحت ان تمام اشیاء کو ضائع کردیاجاتا ہے ۔اس دن کے منانے کا مقصد عوام الناس کو آگاہی دینا ہوتا ہے کہ منشیات کا استعمال معاشرے کے لئے ناسور ہے اینٹی نارکوٹکس فورس پاکستان میں منشیات کے عالمی دن کے طور پر منا تا ہے اے این ایف منشیات سے پاک معاشرے کے حصول کے لئے کوشاںہے اورمکمل دلجوئی و پختہ عزم کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دے رہا ہے۔ اے این ایف منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے قومی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر برسر پیکار ہے جبکہ عوام الناس میں منشیات کے خلاف شعور بیدار کرنے کی غرض سے سال 2024-2025کے دوران اب تک صوبے بھر میں 100سے زائد مختلف نوعیت کی آگاہی سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا جبکہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے خلاف آگاہی اجاگر کرنے کے لئے تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ اس سلسلے میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی(KMU) بھی انٹی ڈرگ اینڈ ٹوبیکوکمیٹی بھی ہر سال یہ دن بڑے اہتمام سے مناتی ہے جس کے روح رواخیبر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق ہیں۔ راقم (ضیاء الحق سرحدی)بھی اس ڈرگ کمیٹی کے رکن ہیں جبکہ آگاہی سرگرمیوں میں سیمینار پر آگاہی واک ، کھیلوں کی سرگرمیاں، پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں آگاہی اشتہارات اور عوامی حلقوں میں آگاہی مواد کی تقسیم شامل ہیں۔عالمی دن کی مناسب سے 26جون 2025کو پشاور شہر میں آگاہی واک کا خصوصی انعقاد کیا گیا ہے جس میں بڑی تعداد میں نوجوانوں اور سول سوسائٹی تنظیمیں شرکت کریں گی۔
اینٹی نارکوٹکس فورس نے منشیات کے عادی افراد کے علاج معالجہ کیلئے تین مراکز قائم کئے ہیں جن میں منشیات کے عادی افراد کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ کراچی، کوئٹہ اور اسلام آباد میں قائم ان مراکز میں اب تک 15000سے زائد افراد کا مفت علاج کیا جا چکا ہے۔ اس وقت90فیصد منشیات افغانستان میں پیدا ہو رہی ہے۔ جس میں سے 40فیصد منشیات پاکستان سمگل کر دی جاتی ہیںاور پھر پاکستان سے آگے مختلف ممالک کو سمگل ہوتی ہیں اور باقی 50فیصد منشیات افغانستان سے وسطی ایشیائی ممالک براستہ بندر عباس ایران اور مختلف دوسرے راستوں سے آگے سمگل کر دی جاتی ہیں۔چار دہائیوں پر مبنی افغان بدامنی نے جہاں پاکستان کی معیشت پر بے پناہ منفی اثرات مرتب کئے ہیں وہاں معاشرے کے نوجوان طبقے میں بگاڑ پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ بدامنی اور دہشت گردی نے جہاں کاروبار زندگی برباد کرکے نوجوانوں کو بے روزگار کردیا وہاں ان بے روزگار نوجوانوں کو نشہ فراہم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں بیس کروڑ سے زائد افراد منشیات کے عادی ہیں۔ منشیات کا استعمال سب سے زیادہ براعظم امریکا میں کیاجاتا ہے۔ ہیروئن کے استعمال میں تعداد کے حوالے سے ایشیا سرفہرست ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں منشیات کی سب سے زیادہ مانگ یورپ میں ہے۔ جہاںتقریباً 75فیصد لوگ ذہنی دبائو اور دیگر امراض سے وقت سکون حاصل کرنے کیلئے منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں 2ملین کے قریب لوگ صرف ہیروئن کے نشے کے عادی ہیں۔افغانستان کے 34صوبوں میں سے 17صوبوں میں 24700سے لے کر59300ایکڑ رقبے پر بھنگ (ہیمپ پلانٹ یا Marijuanaجس سے چرس بنتی ہے) کاشت ہوتی ہے ۔ جس سے سالانہ 1500سے 3500ٹن چرس حاصل ہوتی ہے اور اس کی آمدن 115ملین ڈالر تک ہے جو افیون سے حاصل ہونے والی رقم کا صرف 10سے 15فیصد ہے۔
پاکستان میں نہ صرف اس کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جائیں بلکہ اس کے پھیلائو کی وجوہات کو دور کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔جبکہ پاکستان میں منشیات سے پاک معاشرے کے قیام کیلئے ایک بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے۔حکومت کو چاہئے کہ انسداد ڈرگ/نارکوٹکس پالیسی کے تحت تمام نوجوان پاکستانیوں کو اس کے غلط استعمال و مضر اثرات کی تعلیم دے اور اسکولوں، کالجوں میں سوشل ٹریننگ، علاج کے پروگرامز متعارف کرائے،ڈرگ ٹریفکنگ کو موثر طریقے سے روکے،جو لوگ منشیات کے عادی ہوچکے ہیں انہیں مجرم سمجھنے کے بجائے انہیں ان کی زندگی کی نارمل صلاحیت کی بحالی میں مدد کی جائے،منشیات کا کاروبار کرنے والے افراد کو گرفتار کر کے قانون کے مطابق سزا دلوائی جائے، تمام لیبر یونین اور سیاسی جماعتوںکو منشیات کے خلاف موثرکردار ادا کرنا چاہئے، منشیات کے استعمال کے خلاف مہم میں انٹر نیٹ،موبائل فونز ، ریڈیو اور ٹیلی وژن کا موثر استعمال لینا چاہئے، وزارت نارکوٹکس کنٹرول کو وزارت مذہبی امور کے تعاون سے ایسے پروگرام تیار کروانا چاہئے جو منشیات کی لعنت اور اس کے مضر اثرات سے طلباء ، اساتذہ ، خاص کر مدرسہ کو معلومات فراہم کر سکے ،وفاقی و صوبائی سطح پراین جی اوز کی مدد سے بھی علاج برائے بحالی سنٹر کھولیں جائیں، جیل آبادی کو ملحوظ رکھا جائے کیونکہ وہ لوگ جو جیل جاتے ہیں ان میں سے چالیس فیصد منشیات کے عادی ہوتے ہیں۔ بحالی اور علاج کا کام جیل سے شروع کرنے کی بھی ضرورت ہے اور خواتین کیلئے بڑے شہروں میں عادی خواتین کی بحالی و علاج کیلئے سنٹر کھولے جائیں۔تاکہ منشیات ہمارے ملک سے ختم ہوسکے اور ہم ایک تندرست قوم بن سکیں۔