اے وسیم خٹک
ملاکنڈ یونیورسٹی کے لیکچرر کے واقعے نے حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر طوفان برپا کر دیا ہے۔ واقعے کی ابھی تک مکمل انکوائری نہیں ہوئی، مگر سوشل میڈیا کے نام نہاد “شیر” پہلے ہی اپنے گندے ذہنوں کا عکس پیجز پر بکھیر رہے ہیں۔ جو لوگ خود معاشرتی اخلاقیات سے کوسوں دور ہیں، وہ آج اخلاقیات کے درس دینے بیٹھے ہیں۔
سوشل میڈیا پر جاری تبصرے اور الزامات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہاں سب فرشتے بستے ہیں۔ جن لوگوں نے خود کبھی عورتوں کو غلط نگاہوں سے نہیں دیکھا، وہی آج لیکچرر پر الزامات کے تیر برسا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کیا کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا؟ کیا کبھی اپنے شرمناک اعمال کا حساب کیا؟
حقیقت یہ ہے کہ جن کی نیتیں خود گندی ہوں، وہ ہر جگہ گندگی ہی دیکھتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کو خود کبھی یونیورسٹی یا کالج میں اساتذہ سے ذاتی مسائل رہے ہوں گے اور اب اسی بغض و عناد کو نکالنے کے لیے بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے اساتذہ کی بے توقیری صرف ایک موقع ہے، جسے یہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے۔
واقعات کے مطابق، لیکچرر عبدالحسیب دوسری شادی کرنے جا رہے تھے اور ان کے اہلِ خانہ اس پر راضی تھے۔ جس لڑکی سے شادی ہو رہی تھی، وہ بھی راضی تھی۔ تاہم، اس لڑکی کے بھائیوں نے لیکچرر کو مارا اور ان پر الزام لگایا کہ وہ اپنی شاگرد سے شادی کیوں کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ جس شخص نے لیکچرر پر الزام لگایا، وہ اسی لڑکی کا چچا زاد تھا جو خود اس سے شادی کا خواہشمند تھا۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ سارا معاملہ ذاتی رنجش کا نتیجہ ہے؟ کیا اس الزام کے پیچھے ذاتی مفادات کارفرما ہیں؟ یا واقعی کوئی اخلاقی جرم سرزد ہوا ہے؟ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو دراصل لڑکی کے بھائیوں اور چچازاد بھائیوں نے ان کے گھر میں بنائی۔ یہ ویڈیو ان کی مرضی کے بغیر بنائی گئی، جو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 14 کے مطابق غیر قانونی ہے۔ اس پر کسی نے غور نہیں کیا کہ ایک استاد کی نجی زندگی کو کس طرح سرعام تماشہ بنایا جا رہا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ یہ ویڈیوز اور الزامات کہاں تک حقیقت پر مبنی ہیں؟ کیا ان کے پیچھے کوئی سازش ہے یا واقعی کوئی جرم ہوا ہے؟ جب تک انکوائری مکمل نہیں ہوتی، کسی بھی قسم کے الزامات لگانا قبل از وقت ہوگا۔
سوشل میڈیا پر بیٹھے لوگ آج جج، جیوری اور جلاد کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جن لوگوں نے خود کبھی خواتین کو غلط نگاہوں سے دیکھا ہو، جنہوں نے کبھی بازار یا دفتر میں اپنی نظروں کو پاکیزہ نہ رکھا ہو، ان کو کیا حق ہے کہ وہ کسی استاد پر انگلی اٹھائیں؟
یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے کہ جو خود غلاظت میں لتھڑے ہوں، وہ دوسروں پر کیچڑ اچھال رہے ہیں؟ جب تک حقائق سامنے نہیں آ جاتے، ان نام نہاد فرشتوں کو خاموش رہنا چاہیے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق، کسی بھی شخص کے موبائل کو اس کی اجازت کے بغیر دیکھنا یا اس کی نجی معلومات کو عام کرنا جرم ہے۔ اس کے باوجود، سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز اور تصاویر نے اساتذہ کی عزت کو جس طرح تار تار کیا ہے، اس پر کوئی بات نہیں کر رہا۔ کیا یہ ہمارا دوغلا معیار نہیں؟ کیا ہم بحیثیت قوم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ بغیر تحقیق کیے لوگوں کی عزتیں اچھال دیتے ہیں؟
ملاکنڈ یونیورسٹی کے لیکچرر کے واقعے نے ہمارے معاشرتی رویوں کو ایک آئینہ دکھایا ہے۔ سچائی ابھی تک سامنے نہیں آئی، لیکن سوشل میڈیا نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ تحقیق کے بغیر ہی لوگوں کو مجرم بنا دیتے ہیں؟
ہمیں چاہیے کہ اس معاملے کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق دیکھا جائے۔ انکوائری مکمل ہونے دیں، حقائق سامنے آئیں گے۔ اس سے پہلے کسی پر کیچڑ اچھالنے یا بے بنیاد الزامات لگانے سے گریز کریں۔
اگر ہم واقعی انصاف کے علمبردار ہیں، تو ہمیں پہلے اپنی نظروں اور نیتوں کو پاک کرنا ہوگا۔ جو خود ہر وقت غلاظت میں لتھڑے ہوں، ان کو دوسروں پر انگلی اٹھانے کا کوئی حق نہیں۔ جب تک ہماری نظروں میں پاکیزگی اور نیتوں میں خلوص نہیں آتا، ہم ایسے ہی دوسروں کی عزتیں اچھالتے رہیں گے اور معاشرہ مزید بگڑتا جائے گا۔ حقائق سامنے آنے دیں، پھر فیصلہ کریں۔ ابھی بس اپنے منہ بند رکھیں۔
(19 فروری 2025)