کئی سرکاری سکول محض کاغذوں میں موجود، تدریسی عمل مکمل مفلوج ہے، مقامی ذرائع
سہولیات کی عدم دستیابی، اساتذہ کی غیرحاضری اور حکومتی توجہ کا فقدان، تعلیمی معیار گرچکا ہے، مقامی افراد
خود سرکاری اساتذہ اور اعلیٰ افسران کے بچے نجی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، مقامی افراد
وانا (غگ رپورٹ) خیبرپختونخوا کے ضم شدہ ضلع جنوبی وزیرستان میں تعلیمی بحران شدت اختیار کر چکا ہے، جہاں بیشتر سرکاری سکول زبوں حالی کا شکار ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، اساتذہ کی غیر حاضری اور حکومتی توجہ کے فقدان نے سینکڑوں بچوں کو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم کر دیا ہے۔ اس صورتحال کے باعث علاقے میں تعلیمی معیار گر چکا ہے اور سرکاری سکولوں پر عوام کا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق، کئی سرکاری سکول ایسے ہیں جو محض کاغذوں میں موجود ہیں، جبکہ عملی طور پر تدریسی عمل مکمل طور پر مفلوج ہے۔ بعض علاقوں میں سکولوں کی عمارتیں تو قائم ہیں، مگر وہاں طلبہ اور اساتذہ نظر نہیں آتے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ خود سرکاری اساتذہ اور اعلیٰ افسران بھی اپنے بچوں کو ان سکولوں میں بھیجنے کے بجائے نجی اداروں میں داخل کرانے کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے یہ حقیقت مزید واضح ہوتی ہے کہ سرکاری تعلیمی نظام پر انحصار کرنا عام آدمی کے لیے کتنا مشکل ہو چکا ہے۔
نجی تعلیمی ادارے، جو نسبتاً بہتر معیار فراہم کرتے ہیں، عام شہریوں کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔ مہنگی فیسیں اور دیگر اخراجات غریب خاندانوں کے لیے ناقابل برداشت ہیں، جس کی وجہ سے کم آمدنی والے والدین کے پاس بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اگر ضم شدہ اضلاع کے سرکاری تعلیمی اداروں کو نجی شعبے کے تعاون سے بہتر بنایا جائے تو اس سے نہ صرف تعلیمی معیار میں بہتری آئے گی بلکہ حکومتی وسائل کا مؤثر استعمال بھی ممکن ہوگا۔
یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں تقریباً دو کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں، جن میں قبائلی اضلاع کے لاکھوں بچے بھی شامل ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں تعلیمی سہولیات کے فقدان، بجٹ کی کمی اور غیرفعال سکولوں کی وجہ سے شرح خواندگی خطرناک حد تک کم ہے، جو نہ صرف علاقے کی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے بلکہ ایک مکمل تعلیمی بحران کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے۔
یہ مسئلہ صرف تعلیمی اداروں کی زبوں حالی تک محدود نہیں بلکہ پورے سماجی و اقتصادی نظام پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو آنے والے برسوں میں یہ بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے اس مسئلے کا کوئی دیرپا حل نکالے گی یا یہ بچے اسی طرح ناخواندگی کے اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے؟
(20 فروری 2025)