بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
بین الاقوامی یوم مادری زبان ہر سال 21 فروری کو منایا جاتا ہے تاکہ لسانی اور ثقافتی تنوع کے فروغ اور کثیر لسانی معاشروں کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ اس دن کا آغاز 1999 میں یونیسکو نے کیا اور 2000 سے دنیا بھر میں اس کا باضابطہ اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد زبانوں کے تحفظ اور مادری زبان میں تعلیم کے حق کو تسلیم کرنا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا جو لسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔
بین الاقوامی یوم مادری زبان کی تاریخ بنگالی زبان کی تحریک سے جڑی ہوئی ہے، جو اس وقت کے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں برپا ہوئی تھی۔ 1952 میں پاکستان کی حکومت نے اردو کو واحد قومی زبان بنانے کی کوشش کی، حالانکہ بنگالی اس وقت کی آبادی کی اکثریتی زبان تھی۔ اس فیصلے کے خلاف عوام میں بے چینی پیدا ہوئی اور بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا۔ 21 فروری 1952 کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے ایک پرامن مظاہرہ کیا، جس پر پولیس نے فائرنگ کردی، نتیجتاً کئی طلبہ شہید ہوگئے۔ ان کی قربانی لسانی حقوق کی جدوجہد کا ایک اہم سنگ میل بن گئی، اور بالآخر 1956 میں بنگالی کو پاکستان کی ایک سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ بعد ازاں، 1971 میں بنگلہ دیش بننے کے بعد 21 فروری وہاں “شہید دیبوش” یعنی یوم شہداء کے طور پر منایا جانے لگا۔
1999 میں یونیسکو نے 21 فروری کو بین الاقوامی یوم مادری زبان کے طور پر تسلیم کیا تاکہ لسانی تنوع، ثقافتی ورثے، اور مادری زبان میں تعلیم کے حق کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ بعد میں 2002 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی اس دن کی منظوری دے دی۔
ہر سال، یونیسکو ایک مخصوص تھیم کا اعلان کرتا ہے جس کے ذریعے لسانی تنوع کے کسی خاص پہلو کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں مختلف ممالک میں تقاریب، سیمینارز، ثقافتی پروگرام، اور تعلیمی سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں تاکہ مادری زبانوں کے تحفظ اور فروغ پر زور دیا جا سکے۔ ان تقریبات میں ثقافتی پرفارمنس، کتاب میلے، ادبی مباحثے، زبان کے تحفظ پر ورکشاپس، تعلیمی اداروں میں لیکچرز اور سوشل میڈیا پر آگاہی مہمات شامل ہوتی ہیں۔
بین الاقوامی یوم مادری زبان کا بنیادی مقصد زبانوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے، کیونکہ زبان کسی بھی ثقافت کی بنیادی شناخت ہوتی ہے۔ مادری زبان میں تعلیم بچوں کی ذہنی نشوونما اور سیکھنے کے عمل میں بہتری لاتی ہے، جبکہ کثیر لسانی معاشرے برداشت، تخلیقی صلاحیتوں اور عالمی ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں۔
آج دنیا میں تقریباً 7,164 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ یہ تعداد وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے؛ کچھ زبانیں ناپید ہو جاتی ہیں، جبکہ کچھ نئی زبانیں وجود میں آتی ہیں یا تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہیں۔ زبانوں کی کل تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے، لیکن جدید تحقیق کے مطابق یہ تعداد 7000 سے زیادہ ہے۔
تاریخی طور پر ماہرین کا اندازہ ہے کہ انسانی تاریخ میں تقریباً 31,000 زبانیں موجود رہی ہوں گی۔ یہ تخمینہ مختلف عوامل جیسے کہ آبادی کی جغرافیائی تقسیم، ثقافتی تنوع، اور الگ تھلگ معاشروں کے وجود پر مبنی ہے۔ قدیم دور میں، جب دنیا میں چھوٹے چھوٹے قبائل ہوا کرتے تھے، ہر گروہ اپنی الگ زبان رکھتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، بڑی تہذیبوں اور ریاستوں کے ابھرنے سے کئی زبانیں ختم ہو گئیں یا بڑی زبانوں میں ضم ہو گئیں۔
زبانوں کے معدوم ہونے کی شرح تشویشناک حد تک تیز ہو چکی ہے۔ ہر 40 دن میں ایک زبان ختم ہو رہی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال تقریباً 9 زبانیں ناپید ہو رہی ہیں۔ اگر یہ رجحان جاری رہا، تو آئندہ چند دہائیوں میں دنیا کی نصف زبانیں مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہیں۔ عالمی سطح پر بولی جانے والی بڑی زبانیں، جیسے انگریزی، چینی، عربی اور ہسپانوی، مقامی اور نایاب زبانوں پر حاوی ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے چھوٹی زبانیں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔
زبانوں کا معدوم ہونا صرف الفاظ یا جملوں کے غائب ہونے کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس سے پوری ثقافتی شناخت، روایات، اور مقامی دانش بھی مٹ جاتی ہے۔ جب کوئی زبان ختم ہوتی ہے، تو اس کے ساتھ کہانیاں، گیت، روایتی علم، اور نسلوں سے منتقل ہونے والے تصورات بھی کھو جاتے ہیں۔ اس لیے زبانوں کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں اقدامات کیے جا رہے ہیں، تاکہ لسانی تنوع برقرار رہے اور ہر قوم اپنی زبان اور ثقافت کو محفوظ رکھ سکے۔
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زبانوں کے حقوق کے لیے دی جانے والی قربانیاں بے معنی نہیں، اور ہر زبان اپنی شناخت اور بقا کا حق رکھتی ہے، خواہ وہ کتنی ہی کم بولی جاتی ہو ، اپنی پہچان اور تحفظ کی مستحق ہے۔ اس کے ذریعے ہم یقینی بنا سکتے ہیں کہ آئندہ نسلیں اپنی مادری زبان میں سیکھنے اور اظہارِ خیال کرنے کے قابل ہوں۔
ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ مادری زبان محض ایک ذریعہ ابلاغ نہیں، بلکہ ہماری شناخت کی روح، ہمارے ثقافتی ورثے کا امین، اور وہ پل ہے جو ہمیں اپنے آباؤ اجداد سے جوڑتا ہے۔ زندگی میں ہم کئی زبانیں سیکھتے اور سمجھتے ہیں، لیکن کوئی بھی زبان ہماری مادری زبان جتنی قریب، فطری اور ہمارے وجود میں رچی بسی نہیں ہوتی۔ یہ وہ پہلی آواز ہے جسے ہم پہچانتے ہیں، وہ پہلا آہنگ ہے جو ہماری روح میں سرایت کر جاتا ہے، اور وہ پہلا ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہم دنیا کو سمجھنے لگتے ہیں۔
ہماری مادری زبان محض الفاظ اور گرامر کا مجموعہ نہیں، بلکہ تاریخ کا خزانہ، اجتماعی حکمت کا سرچشمہ، اور وہ غیر مرئی جذباتی کیفیت ہے جسے ترجمے میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہماری سوچ، ہمارے خیالات اور ہمارے شعور و فکر کو تشکیل دیتی ہے۔ یہی وہ زبان ہے جس میں ہم پہلی بار محبت کا احساس کرتے ہیں، اپنے درد کا اظہار کرتے ہیں، اور اپنی گہری ترین خواہشات کو الفاظ دیتے ہیں۔ یہ ہمارے بچپن، ہماری دعاؤں، ہماری ہنسی، اور ہمارے خوابوں کی زبان ہے۔
اپنی مادری زبان کو ترک کرنا اپنے ثقافتی ورثے سے کٹ جانا ہے۔یہ ان آوازوں کو خاموش کر دینا ہے جو نسلوں سے گونج رہی تھیں، اور صدیوں کی تہذیب کو گمنامی کے اندھیروں میں دھکیل دینا ہے۔ زبانوں کے ناپید ہونے کا مطلب صرف الفاظ یا جملوں کا غائب ہو جانا نہیں، بلکہ پوری ثقافتی شناخت، روایتی حکمت اور اجتماعی ورثے کا زوال ہے۔
مگر اپنی مادری زبان کو اپنانا ایک بقا اور مزاحمت کا عمل ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہماری تاریخ اہم ہے، ہماری شناخت قیمتی ہے، اور ہماری آنے والی نسلیں اپنے شاندار ماضی کی وراثت کی مستحق ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں، جہاں عالمی زبانوں کو فوقیت دی جاتی ہے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ لسانی تنوع کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ ایک نعمت ہے۔ یہی تنوع ہر تہذیب کو منفرد بناتا ہے، انسانی اظہار کو تقویت بخشتا ہے، اور دنیا کو رنگا رنگ رکھتا ہے۔
آئیے، ہم اپنی مادری زبان پر فخر کریں۔نہ صرف ایک ذریعہ اظہار کے طور پر، بلکہ ایک نظریے کے طور پر، جو ہماری شناخت، تاریخ اور ثقافتی ورثے کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں، ہم کون ہیں، اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جڑوں کو مضبوط رکھیں، تاکہ آنے والی نسلیں بھی اپنی اصل سے جڑی رہیں اور اپنی پہچان برقرار رکھ سکیں۔ کیونکہ ایک قوم اپنی زبان کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے درخت اپنی جڑوں کے بغیر، بے بنیاد، بے ثبات اور فنا کے قریب۔
اپنی زبان بولو، اپنی زبان لکھو، اپنی زبان پڑھو، اور اپنی زبان کو اگلی نسلوں تک منتقل کرو، کیونکہ زبان محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک شناخت کی امین ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنی زبان کو فراموش کر دیں گے تو اپنی جڑوں، اپنے ورثے اور اپنی پہچان سے محروم ہو جائیں گے۔ اسے سنبھالو، اسے سنوارو، اور اسے آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھو تاکہ یہ بھی ہزاروں معدوم زبانوں کی طرح وقت کی دھول میں نہ کھو جائے۔
(21 فروری 2025)