GHAG

مادری زبان کی اہمیت

روخان یوسف زئی

دراصل وہ زبان جو بچہ اپنی ماں باپ سے سیکھے، وہ زبان جس میں انسان خواب دیکھتا ہو،وہ زبان جس میں وہ اپنے احساسات اور جذبات کا بڑی آسانی اورسلیقے سے اظہار کرسکتا ہو اسی زبان کو گھر کی زبان یا اپنی بولی یا مادری زبان کہاجاتا ہے۔ دنیا میں دو زبانیں ایسی ہیں جو ہر شخص بغیر کسی قسم کا علم حاصل کیے بول یا سمجھ سکتا ہے، ایک اپنی مادری زبان اور دوسری اشاروں کی زبان۔

مادری زبان صرف زبان یا لسّانیت نہیں ہوتی، بلکہ پوری ایک شناخت ہوتی ہے۔بقول امیرحمزہ شنواری

اول خپلہ ژبہ پستہ نورے ژبے

بے بنیادہ عمارت خو سمون نہ کا

اول اپنی زبان بعد میں دوسری زبانیں،کہ بنیاد کے بغیر کوئی بھی عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی۔لہذا اپنی مادری زبان پوری زندگی کی عمارت کی بنیاد ہوتی ہے۔مادری زبان ایک پوری تہذیب، تمدّن، ثقافت، جذبات و احساسات کا حسین امتزاج ہوتی ہے۔ مادری زبان میں خیالات و معلومات کی ترسیل اور ابلاغ ایک قدرتی اور آسان طریقہ ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کا عمل جو کہ سراسر انسانی ذہن میں تشکیل پاتا ہے، وہ بھی لاشعوری طور پر مادری زبان میں ہی پراسیس ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ انسان خواب بھی مادری زبان میں ہی دیکھتا ہے۔ لہذا انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کا سب سے بہترین اظہار بھی مادری زبان میں ہی ممکن ہے۔ فی البدیہہ اظہار کے لیے بھی مادری زبان کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔ انسان جب رحمِ مادر میں ہوتا ہے، تو اّس کا نظامِ سماعت کام کرنا شروع کردیتا ہے۔ جن آوازوں کو انسان سنتا ہے، اُن آوازوں میں انسانی ذہن کے اندر ماحول کا شعور اور گرامر و قواعد ترتیب پانا شروع ہوجاتے ہیں۔ فہم ِ انسانی کا براہِ راست تعلّق بھی ذہن انسانی اور مادری زبان کے رابطے سے ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ فہمِ انسانی میں فراست، وسعت اور گہرائی صرف مادری زبان میں ہی ممکن ہے۔ القصّہ مختصر سیکھنے اور سکھانے کے لئے آسان ترین زبان، مادری زبان ہی ہے، اِس کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں ہے۔ یونیسکو نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ ترقّی پذیر ممالک کی شرح خواندگی میں کمی کی ایک بڑی وجہ مادری زبان میں تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ ابتدائی تعلیم سے متعلّقہ یونیسکو کی جاری کردی پالیسی دستاویز میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ چھوٹے بچّوں کو ابتدائی 6 سال تک مادری زبان میں تعلیم دی جانی چاہیئے، تاکہ جو کچھ بچے نے سیکھا ہے وہ بھول نہ جائے۔ مختصراً یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ زبان جو انسان اپنی ماں سے سیکھے۔ ماں کی نسبت جس کسی چیز ، مادے یا متعلقات سے ہو جاتی ہے اس سے دل کا اور جذباتی رشتہ استوار ہو جاتا ہے۔ یہی اُنسیت مادری زبان کے ساتھ بھی ہے۔

واضح ہو کہ 21 فروری ان قوموں کیلئے انٹرنیشنل مدر لینگویج ڈے (مادری زبانوں کا عالمی دن) ہے، جنہیں ان کی مادری زبان کی اہمیت کا اندازہ ہو، جنہیں معلوم ہو کہ مادری زبان ان کی پہچان یا شناخت ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے احساسات ، اپنے نظریات کو باآسانی اپنے ہم زبانوں کو سمجھا سکتے ہیں۔اس تاریخی دن کی شروعات بنگلہ دیش کے کچھ نوجوانوں نے کی جب تاریخ میں پہلی بار اپنی مادری زبان کو تسلیم کرانے کے لیے اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔ 21 فروری ہمیں پھر سے یاد دلاتی ہے کہ ہاں ہم زندہ ہیں اور ہماری خود کی پہچان اور اہمیت مسلم ہے۔

 معتبر ادبی شخصیت رسول حمزہ توف اپنی کتاب “میرا داغستان” میں مادری زبان کی حیثیت کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ ”میرے نزدیک زبانیں آسمان پر بکھرے ہوئے ستاروں کی حیثیت رکھتی ہیں اور میں یہ نہیں چاہوں گا کہ تمام ستارے ایک دوسرے میں ضم ہوکر ایک بڑے ستارے کا روپ لے لیں کیونکہ اس کیلئے تو سورج موجود ہے لیکن سورج کے وجود کے بعد بھی یہ ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ آسمان پر ستارے چمکتے رہیں اور ہر آدمی کے پاس اس کا اپنا ستارہ ہو۔“

رسول حمزہ توف کے مطابق ہر کسی کے پاس اپنی مادری زبان کا ہونا اور جاننا لازم و ملزوم ہے۔

ایک لسانی جائزے کے مطابق دنیا بھر میں کُل 6809 زبانیں بولی جاتی ہیں جن کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ 537 زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والے افراد کی تعداد تقریباً پچاس افراد کے قریب ہی رہ گئی ہے اور 46 زبانیں مکمل ختم ہونے کو ہیں جن کو بولنے والا دنیا میں ایک ایک انسان ہی باقی بچا ہے۔

ہر سال 21 فروری کو کم و بیش ہر زبان کے بولنے والے اپنی مادری زبان عالمی سطح پر مناتے ہیں۔اس دن کو منانے کا مقصد دنیا تمام زبانوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے اور اس کو فروغ دینا ہے۔چونکہ گلوبلائزیشن اور ڈیجیٹلائزیشن کے دور میں کئی مقامی زبانیں معدومیت کے دہانے پر ہیں، اس لیے ان کے فروغ، اشاعت اور ترقی کے لیے کچھ عملی قدمات اٹھانے چاہیئے۔جس کو اپنی مادری زبان پیاری ہوتی ہے اسے دوسروں کی زبان کو بھی اسی نظر اور احساس سے دیکھنا چاہیئے۔پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانیں اسی سرزمین کی زبانیں ہیں اور یہ ایک گلدستہ ہے لہذا اس گلدستے میں اگر ایک پھول بھی مرجھا جائے تو گلدستہ کا رنگ پیکا اور نامکمل نظر آئے گا۔

ایک ایک حرف کی رکھنی ہے آبرو مجھ کو

سوال دِل کا نہیں ہے، میری زبان کا ہے

(21 فروری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp