اے وسیم خٹک
عمران خان کی جانب سے چیف آف آرمی اسٹاف کو تین خطوط لکھے گئے۔ ہر خط کے شروعات کا سرنامہ “کھلا خط” ہوتا ہے اور اندر گھما پھرا کر وہی باتیں کی جاتی ہیں۔ خود کو محب وطن ثابت کرنا اور وطن کے ساتھ محبت کا دعویٰ کرنا۔ یہ باور کروایا جاتا ہے کہ فوج کی ملک کے عوام میں مقبولیت ختم ہو گئی ہے اور وہ غلط بیانیہ بیان کر رہی ہے، جس سے عوام متنفر ہو رہی ہے۔ خان صاحب یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ بس ایک پی ٹی آئی ہی واحد جماعت ہے جو مخلص ہے، باقی سب چور ہیں اور ان کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جب چیف آف آرمی اسٹاف کی جانب سے جواب نہیں ملتا تو وہ ان خطوط کو پبلک کر دیتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اس سے کچھ خاص حاصل ہونے والا نہیں۔ “آخری کال” کے بعد اب لیٹرز پر لیٹرز لکھے جا رہے ہیں، پتہ نہیں اس کے بعد کیا کیا جائے گا۔
پاکستانی سیاست میں خط لکھنے کی روایت نئی نہیں، مگر حالیہ دنوں میں عمران خان کے چیف آف آرمی اسٹاف کو لکھے گئے کھلے خطوط نے سیاسی منظرنامے میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ خطوط، جو بظاہر عوامی مفاد میں لکھے جا رہے ہیں، درحقیقت ایک مخصوص بیانیے کو آگے بڑھانے کی کوشش ہیں۔ بیانیہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی ہی واحد مخلص جماعت ہے، باقی سب بدعنوان ہیں، اور انہیں ایک سازش کے تحت دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔
ان خطوط میں گھما پھرا کر وہی نکات بار بار دہرائے گئے ہیں۔ اپنی حب الوطنی کا اظہار، عوام کی حمایت کا دعویٰ، اور فوج پر الزام کہ وہ غلط بیانیہ بنا رہی ہے جس کی وجہ سے عوام اس سے متنفر ہو رہی ہے۔ خط کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ اداروں کو سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، مگر ساتھ ہی یہ اصرار بھی کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو سیاست میں دوبارہ جگہ دی جائے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جب ان خطوط کا کوئی جواب نہیں ملتا تو انہیں پبلک کر دیا جاتا ہے، تاکہ عوامی دباؤ کے ذریعے ریاستی اداروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا سکے۔ یہ حکمتِ عملی ہمیں عمران خان کے سابقہ سیاسی بیانات اور تحریکوں میں بھی نظر آتی ہے، جہاں وہ پہلے بند دروازوں کے پیچھے بات چیت کی کوشش کرتے ہیں، اور جب مطلوبہ ردعمل نہیں ملتا تو عوام کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔
ماضی میں ایسے کھلے خطوط اور بیانات کے کچھ خاص نتائج نہیں نکلے۔ نواز شریف سمیت کئی دیگر رہنما بھی ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ لے کر آئے، مگر وقت کے ساتھ یا تو ان کا بیانیہ بدل گیا یا انہیں پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ عمران خان بھی اسی دوراہے پر کھڑے نظر آتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام میں اب بھی ان کی خاصی مقبولیت موجود ہے، مگر محض خط لکھنے اور اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانے سے وہ عملی طور پر کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ سیاست میں بیانیہ سازی اہم ہوتی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات اور مصالحتی پالیسی بھی ضروری ہوتی ہے۔
اگر تحریکِ انصاف واقعی خود کو ایک عوامی جماعت ثابت کرنا چاہتی ہے، تو اسے کھلے خطوط، آخری کالز اور مسلسل الزامات کے بجائے ایک مضبوط سیاسی حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ سیاسی راہ ہموار کرنے کے لیے اداروں سے محاذ آرائی کے بجائے عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دینا ضروری ہوگا۔ بصورتِ دیگر، یہ خطوط محض ایک سیاسی ہتھکنڈہ بن کر رہ جائیں گے، جس کا اثر وقتی ہوگا اور دیرپا کامیابی کے امکانات معدوم۔
(21 فروری 2025)