GHAG

مولانا فضل الرحمان کی قومی اسمبلی میں کی گئی اہم تقریر کا خلاصہ

گزشتہ 20 سال سے ایک ہی علاقے پر جنگ فوکس ہے، یہ پہاڑوں کا وہ منطقہ ہے جو عالمی جنگ کا سبب بنا

روس اور امریکہ کو شکست ہوئی، آج چائنہ وہاں تک رسائی کی کوششوں میں ہے

اگر ٹرمپ غزہ کے بارے میں کہہ سکتا ہے تو اس کے ایجنڈے پر شاید یہ بھی ہو کہ قبائلی علاقے قبضہ کر لیں

پشاور میں تمام قبائل کا جرگہ ہوا ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ خدا کے لیے ہمیں امن دو

سب کچھ قربان کرنے اور پوری طرح تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن معاملہ پارلیمنٹ طے کرے گی، سربراہ جے یو آئی

اسلام آباد(غگ رپورٹ)جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ جو کچھ پاکستان کے بارڈرز پہ ہو رہا ہے یہ آج سے نہیں بلکہ 40 سال سے ہو رہا ہے اور اگر 40 سال کا عرصہ نہ گنیں تو گزشتہ 20 سال سے ایک ہی علاقے پر جنگ فوکس کی گئی ہے، جس سے جغرافیائی تبدیلیوں کی نشاندہی ہوتی ہےاور یہ پہاڑوں کا وہ منطقہ ہے جو عالمی جنگ کا سبب بنا ہے، جہاں روس اور امریکہ نے قبضہ کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن افغانوں نے لڑ کر ان کو نکال دیا۔ آج چائنا کی بھی خواہش ہے کہ میری رسائی افغانستان تک ہو سکے۔

قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں دو قسم کے معدنیات ہیں، ایک وہ معدنیات جس کے ساتھ عام لوگوں کی معیشت کا تعلق ہے گیس کوئلہ تیل چاندی کاپر وغیرہ وغیرہ کچھ وہ پتھر بھی ہیں کہ جو خلا میں جانے والے راکٹوں اور میزائلوں میں استعمال ہوتے ہیں، جو ساڑھے چار سو کی ہیٹ پر بھی تحلیل نہیں ہوتے، اس سے الٹا جائیں تو اتنی سخت سردی میں بھی وہ منجمد نہیں ہوتے، اس کی ضرورت امریکہ کو بھی ہے، اس کی ضرورت چائنا کو بھی ہے، اس کی ضرورت روس کو بھی ہے۔ وہ ان علاقوں تک پہنچنا چاہتے ہیں اور ہمارے ان وسائل پر کہ جن کے ساتھ بڑی قوتوں کے مفادات وابستہ ہیں جو ان کی میزائلوں میں استعمال ہونگے، ان کے راکٹوں میں استعمال ہوں گے اور اس کے لیے وہ تگ ودو کر رہے ہیں کہ کس طرح اس علاقے پر اپنا ہاتھ مضبوط کر لیا جائے۔

سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ کوئی عجب نہیں اگر ٹرمپ غزہ کے بارے میں یہ بات کہہ سکتا ہے تو اس کے ایجنڈے پر یہ بھی ہو کہ قبائلی علاقے پر ہم قبضہ کر لیں، یہاں کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لیں، پاکستان کا عمل دخل ہم ختم کر دیں۔ وہاں ویسے بھی اس کی رٹ کمزور ہو چکی ہے اور پھر اس کے بعد وہ یہی سے ہمارے معدنیات کو بھی لے جائیں اور افغانستان کو بھی ڈیل کرے، تہران کو بھی ڈیل کرے، انڈیا پہ بھی راج کرے، پاکستان کو بھی کرے اور چائنہ کو بھی کرے۔

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ یہ جغرافیائی تبدیلیوں کے وہ  خطرات ہیں جن کو ہم محسوس کر رہے ہیں، ہمارے قبائلی علاقوں میں جنگیں ہو رہی ہیں، کرم میں جنگیں ہو رہی ہیں، کیا ریاست پر کسی کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہاں کی صورتحال کو بہتر بنائیں، ایک طرف آپ نے ان کو ضم کر دیا ضم کرنے کے بعد بجائے اس کے کہ وہاں خوشحال آنی چاہیے تھی، وہاں باغ و بہار ہونا چاہیے تھا، وہاں سبزا ہونے چاہیے تھا، وہاں دودھ کی نہریں اور شہد کی نہریں بہنی چاہیے تھیں، الٹا ہمارے علاقے بھی خوار ہو گئے، وہاں کا امن بھی ہم سے چھن گیا، وہاں کی خوشیاں بھی ہم سے چھن گئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک سال کے اس پورے عرصے میں باجوڑ جہاں سے ہم اپنی پارٹی کے 90 جنازے بیک وقت، روزانہ ہمارے دو دو تین تین جنازے اٹھ رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ قبائل کا بڑا جرگہ میرے پاس آیا، باجوڑ کا جرگہ میرے پاس آیا ہے، آفریدیوں کے جرگہ میرے پاس آیا ہے، مہمند کا جلسہ میرے پاس آیا ہے، شنیواری، اورکزئی، کرم، وزیروں، داوڑ، محسود، ایک علاقہ ایسا نہیں ہے کہ جن کے لوگ جرگہ لے کر میرے گھر نہ آئے ہوں ایک ہی بھیک مانگ رہے ہیں کہ ہمیں امن دو، آپ بتائیں میں کہاں سے امن دوں۔

خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی نہیں سنتا کوئی تو میرے ایک آدمی کی کیا سنے گا، ابھی پشاور میں تمام قبائل کا جرگہ ہوا ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ خدا کے لیے ہمیں امن دو۔ ہم دربدر ہوچکے ہیں، 2010ء سے وہ لوگ مہاجر ہیں، اپنے ملک کے اندر مہاجر ہیں، بھیک مانگ رہے ہیں، وہ قبائل جو اپنے روایات رکھتے ہیں، جن کی خواتین گھروں سے باہر نہیں نکلتی، آج وہ گلی کوچوں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئی ہیں، تمہیں اپنے پشتونوں کے اور ان کی روایات کیا اور ان کی عزت کی کوئی لحاظ نہیں، تمہیں اپنے بلوچوں کی عزت کا کوئی لحاظ نہیں ہے، پالیساں صحیح لوگوں کے حوالے کرو تاکہ معاملات بہتری کی طرف جانا شروع ہو جائیں،ہم ملک کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں، ہم پوری طرح تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن معاملہ پارلیمنٹ طے کرے گی، سویلین قیادت کے اوپر ہمیں اعتماد کرنا چاہیے، ورنہ پھر یہی ہوگا کہ آئے روز پارلیمان میں بھی ہنگامہ آرائی، نہ کوئی مشترکہ سوچ، نہ کسی مسئلے پر سنجیدہ ڈیبیٹ، نہ کوئی معاملہ فہمی، نہ ہی اس کی طرف آگے بڑھ سکیں گے۔

(21 فروری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts