روخان یوسفزئی
ویسے تو ملک کے مختلف حصوں میں امن و امان کی صورت حال کو تسلی بخش قرار نہیں دیا جاسکتا مطلب جسے حقیقی معنوں میں امن یا سلامتی کہا جاتا ہے ہمارے بدقسمت ملک میں اس طرح امن کے لیے ہم سب ترس رہے ہیں۔ خاص طور پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہاں امن و امان کی صورت حال روز بروز تشویشناک اور خطرناک ہوتی جارہی ہے۔یہاں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بدامنی کے واقعات رونما ہورہے ہیں اور اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دونوں صوبوں کے باشندے ”تنگ آمد بجنگ آمد“ جیسی صورت حال اور کیفیت سے گزر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کا اولین مطالبہ امن کی بحالی ہے۔
دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور دیگر انتہاپسند عناصر نہ صرف خیبرپختونخوا کے عوام بلکہ ملک کی ترقی،سلامتی اور ہم آہنگی کے ڈھانچے کے لے بھی فوری اور سنگین خطرہ ہیں۔ایسے افسوسناک واقعات کا تسلسل سے رونما ہونا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہےکیونکہ کسی بھی حکومت کا اصل فریضہ اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے اور انہیں صرف باتوں اور اعلانات کی نہیں بلکہ عملاً آئین وقانون نافذ ہوتا نظر آنا چاہیئے۔
خیبرپختونخوا کا صوبہ جو پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے محاذ پر کھڑا ہے طویل عرصے سے دہشت گردی کے ناسور کا شکار ہے جس کی بڑی وجہ اس کی افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہونا ہے جو کئی دہائیوں سے بدامنی کا شکار ہے۔صوبے کا دارالحکومت پشاور جو کبھی پھولوں کا شہر تھا اور اسی نام سے لکھا اور پکارا جاتا تھا، یعنی پشاور کو پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا مگر بدامنی،دہشت گردی اور یہاں آنے والی مختلف صوبائی حکومتوں کی ناقص کارکردگی اور غفلت کے باعث آج اس پھولوں کے شہر کو اگر ”کانٹوں“ کا شہر کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ آج کے اس شہر کی حالت یہ بنی ہوئی ہے کہ:
یہ شہر گل فروشاں تھا چمن تھا
بکھر کر پتا پتا ہوگیا ہے
پشاور شہر جوکبھی امن، ترقی اور خوبصورتی کی علامت سمجھا جاتا تھا، جو ادبی، ثقافتی اور کارباری سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا، آج خاموشی اور جمود کا شکار ہے، بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، بھتہ خوری،انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خوف میں مبتلا نظر آرہا ہے۔ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں جہاں انفراسٹکچر کی کمی ایک مسئلہ ہے، وہاں سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی ہے، پے درپے پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ شرپسند عناصر کہاں سے کن راستوں سے آتے ہیں؟ ان شرپسندوں کو پناہ کہاں ملتی ہے؟ وہ کون لوگ ہیں جو اس معاملے میں سہولت کاری کررہے ہیں۔ قانون پسند اور امن پسند طبقوں کے لیے ایسے ماحول میں رہنا انتہائی المناک حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ صوبائی اور مرکزی حکومت کا اولین فرض بنتا ہے کہ وہ تمام دستیاب وسائل،عزم اور پختہ ارادے کو بروئے کار لاتے ہوئے صوبے سے دہشت گردوں،شرپسندوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرے۔اس مقصد کے لیے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر مشترکہ طور پر کام کرنا ہوگا۔
قانون کی علمداری،ریاست و حکومت کی رٹ کے نفاذ اور اس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومت کو مشترکہ حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کے خطرے سے حقیقی طور پر نمٹنے کے لیے صرف فوجی طاقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر انحصار کافی نہیں ہے، یہ ضروری ہے کہ ان بنیادی وجوہات کو حل کیا جائے جو انتہاپسندی کو جنم دیتی ہیں۔جیسے غربت،تعلیمی مواقعے کی کمی، بے روزگاری اور سماجی تنہائی، صوبائی حکومت کو ایسی پالیسیوں پر توجہ دینی چاہیئے کیونکہ اچھی حکمرانی کا بنیادی اصول یہی ہے کہ اپنی بنیادی ذمے داریوں کی تکمیل میں مستقل مزاجی اختیار کی جائے اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت یا حدود سے تجاوز کرنے کی خواہش سے اجتناب کرنا چاہیئے۔
یہ جو صوبائی حکومت کے ترجمان کہتا پھرتا ہے کہ ہماری صوبائی حکومت افغانستان کی عبوری حکومت سے مذاکرات کرنے کی تیاری کررہی ہے تو کیا کسی دوسرے ملک یا ریاست سے مذاکرات صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں؟ یا یہ کام پاکستان کی ریاست کا ہے۔ پھر وہ کون سے شرائط ہیں جس کے تحت مذاکرات کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے؟ لہذا صوبائی حکومت کو جوش یا مرکزی حکومت سے انتقامی جذبے کے تحت اس قسم کے غیرذمہ دارانہ بیانات اور اقدامات سے سخت اجتناب کرنا چاہیئے۔
افغان طالبان کی عبوری حکومت ہی وجہ سے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو کھل کر کھیلنے کے مواقع مل رہے ہیں۔بدقسمتی سے اپنے دفاعی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان کئی اندرونی اور بیرونی طاقتوں کا ٹارگٹ اور آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ چین سے پاکستان کی قربت کسی کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔سی پیک راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ایک دنیا پاکستان کے لیے سیکورٹی خطرات پیدا کررہی ہے جبکہ پاکستان جانتا ہے کہ سی پیک ایک گیم چینجر منصوبہ ہے اور اس کی کامیابی ہمارے روشن مستقبل کی یقینی ضمانت ہے۔لہذا”جس کا کام اسی کو ساجھے“ پر عمل کرنے کیساتھ ساتھ ریاستی سطح پر صوبوں میں سیکورٹی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
(24 فروری 2025)